پیر, جولائی ۷, ۲۰۲۵
23.5 C
Srinagar

رائے کا احترام ضروری۔۔۔۔۔۔

جموں کشمیر اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے کا وقت قریب آرہا ہے اور پہلے مرحلے میں ہو رہے اسمبلی حلقوں کے اُمید وار زبردست زور آزمائی کر رہے ہیں۔امیدوار ووٹران کو اپنی جانب رغب کرنے میںایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں ۔لگ بھگ 37سال بعد پہلی مرتبہ اس طرح کے ا نتخابات جموں کشمیر میں ہو رہے ہیں، جن میں براہ راست بعض علیحدگی پسند لیڈر بھی شرکت کررہے ہیں۔جموں کشمیر یوٹی کے دائرے میںپہلی بار ہو رہے ان انتخابات میں60فیصد ووٹران پڑھے لکھے ہیں جن میں نوجوان ووٹران کی اچھی خاصی تعداد بھی شاملہے۔ان انتخابات میں 43فیصد سے زیادہ خواتین ووٹران بھی ہیں جبکہ 35فیصد ووٹران کی عمر 18سے 35سال کے درمیان ہے ۔اس بات میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ جمہوریت کا حُسن انتخابات ہوتے ہیں اور اس میں ایک عام شہری کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے زریعے سے کسی بھی من پسند اُمید وار کو اپنی نما ئندگی کے لئے چُن سکتا ہے۔

37سال قبل جموں کشمیر اسمبلی کے انتخابات ہوئے ،جن میں مسلم متحدہ محاذ نے شرکت کی تھی، جولگ بھگ 12سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک متحدہ پلیٹ فارم تھا ۔متحدہ محاذ کے اُمید واروں میں محمد یوسف شاہ المعروف سیدصلاح الدین بھی امیراکدل حلقہ انتخاب سے جبکہ سید علی شاہ گیلانی مرحوم سوپور حلقہ انتخاب سے اور شبیر احمد شاہ کے برادر اکبر محمد سعید شاہ انت ناگ حلقہ انتخاب سے بطور اُمید وار میدان میںتھے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ لبریشن فرنٹ کے لیڈر محمد یاسین ملک ،جاوید احمد میر اور اشفاق مجید جیسے ملی ٹنٹ اُس وقت متحدہ محاذکے پولنگ ایجنٹ تھے۔کہا جاتا ہے کہ اُس وقت کی سرکار اور انتظامیہ سے وابستہ بیوروکریٹوں نے ان کےساتھ کافی زیادتی کی تھی اور انہوں نے تنگ آکر ہتھیار اُٹھا لئے ، جو بعد میں آزدی کی تحریک بن گئی جس دوران نہ صرف ہزاروں کی تعداد میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ ملی ٹنٹ ،سیکورٹی فورسز اور پولیس اہلکار اور فوجی جوان مارے گئے بلکہ ساتھ ہی ساتھ اربوں روپئے مالیت کے جائیدادوں کو نقصان پہنچایا ،اسکول ،کالج ،پُل اور دیگر سرکاری عمارات کو خاکستر کیا گیا۔بہر حال دہائیوں بعد آج ایک ہوا چلی کہ پھر 1987کی انتخابی چہل پہل دیکھنے کو مل رہی ہے اور ہر ایک اسمبلی انتخاب میںدرجنوں اُمید وار میدان میںہیں جن میں جماعت اسلامی کے چند اُمیدوار بھی شامل ہیں۔ آج کے انتخابات میں کیا کچھ نکل کر سامنے آتا ہے ،یہ 8اکتوبر کے شام کو واضح ہو جائے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ خواتیں ووٹران اور 18سے 35سال عمرتک کے ووٹران کا فیصلہ انتہائی اہم ہو گا، جن میں زیادہ تر لوگ پڑھے لکھے ہیں۔ایک طرف بی جے پی اب کی بار چالیس پار کا نعرہ بُلند کرتی ہوئی نظر آرہی ہے تودوسری جانب پی ڈی پی اور این سی آزاد اُمیدواروں کو مرکزی حکمران جماعت کے پراکسی یعنی درپردہ اُمید وار کہتے ہیں جو عوامی حلقوں میں موضوع بحث بن رہا ہے ۔

یہاں یہ بات بھی سُنے کو مل رہی ہے جس این سی اور پی ڈی پی پر عوامی اتحاد پارٹی کے انجینئر رشید خاندانی راج کا الزام عائد کرتے تھے، ا ُن کے فرزند ارجمند ابرار رشید اور بھا ئی بھی انتخابی میدان میں ووٹ حاصل کرنے کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ دھیرے دھیرے تصویر صاف ہو جائے گی لیکن عوام کو اُمید ہے کہ اس بار پارلیمانی انتخابات کی طرح ملک کا انتخابی کمیشن صاف و شفاف طریقے میں انتخابی عمل پائیہ تکمیل تک لے جائے گا اور ووٹران کی ووٹ کی قدر رہے گی اور اُن کی منشاءکے مطابق اُمید وار کامیاب ہو جائیں گے اور کسی بھی پارٹی یا اُمیدوار کی طرف داری ہرگز نہیں کی جائے گی اور 1987کو ہرگز نہیں دہرایا جائے گا،جو جموں کشمیر کی تاریخ میں ایک بدنما داغ ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img