جموں کشمیر اسمبلی کے انتخابات قریب آنے کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر کی سیاست میں بھی بہت زیادہ تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں ۔حریت کانفرنس کے سیکنڈ لائن لیڈران مین اسٹریم جماعتوں میں شامل ہو رہے ہیں اور حریت کے مرکزی لیڈران اس حوالے سے خاموش ہیں ۔جہاں بی جے پی جموں کشمیر میں اپنا چیف منسٹربنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کررہی ہے، وہیں وہ جموں صوبے میں اپنا سیاسی پلڑا بھاری بنانے میں پوری طرح سے زور آزمائی کررہی ہے۔جہاں تک وادی کشمیر کا تعلق ہے یہاں کے عوام منقسم نظر آرہے ہیں کیونکہ پی ڈی پی،پی سی،اپنی پارٹی ،عوامی اتحاد اور ڈیموکریٹک پروگریسوآزاد پارٹی جیسی چھوٹی چھوٹی پارٹیاں الگ الگ انتخابات لڑکر ووٹوں کو تقسیم کرنے میں مصروفہیں ،جہاں تک نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد کا تعلق ہے، ان دونوں جماعتوں کے ورکر اور کارکن بنیادی سطح پر یک جُٹ نظر نہیں آرہے ہیں، وہ ایک دوسرے کے ساتھ فوٹو تو کھنچوارہے ہیں ،لیکندل آپس میں نہیں مل رہے ہیں۔ان باتوں کا اشارہ بانڈی پورہ،عید گاہ اور دیگر اسمبلی حلقوں کے ورکروں سے مل رہا ہے، جہاں این سی اور کانگریس کے ورکر اور عہدہ دار خود ہی اپنے لیڈران کے خلاف بُرا بھلا کہتے ہیں اور اُن کے فوٹو میٹنگوں میں پھاڑ رہے ہیںاور شوشل میڈیا پر اس طرح کے ویڈیوز وائرل کئے جاتے ہیں۔وادی میں پارٹیوں کے ناراض لیڈران بھاگ کر دوسری پارٹیوں میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں اور اس طرح اپنے ووٹران کو تذبذب میں ڈال رہے ہیں، آخر وہ کس اُمید وار کو ووٹ دیں۔جہاں ایک طرف وادی کے عوام دس سال بعد انتخابات عمل میں لانے پر اپنی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں، وہیںووٹران منڈیٹس کے بندر بانٹ کو لیکر کافی زیادہ ناراض نظر آرہے ہیں۔ کئی علیحدگی پسند جماعتوں سے وابستہ لوگ مین اسٹریم جماعتوں میں شامل ہوچکے ہیں، جو ایک اچھی بات ہے کیونکہ جمہوری عمل کے ذریعے سے تمام عوامی مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔جہاں تک حُریت اور دیگر علیحدگی پسند جماعتوں کا تعلق ہے وہ اپنی پالیسی واضح نہیں کر رہے ہیں کہ اُن کا موقف ان انتخابات کے حوالے سے کیا ہے؟ ۔ ماضی کے انتخابات میں علیحدگی پسندوں نے درپردہ ایک اچھا خاصہ رول نبھایا ہے ۔
جہاں تک آج ہورہے انتخابات کا تعلق ہے، انہیں کھلے طور پر اپنا موقف دہرانا چا ہیے تاکہ لوگ دھوکے میں نہ رہےں ۔ان کی سیکنڈ لائن لیڈر شب براہ راست میدان میں ہے یا حریت لیڈران نے اپنے بچوں اور ہمدردوں کو میدان میں اُتاررہے ہیں، لیکن پھر بھی خود کو انتخابات سے الگ رکھ رہے ہیںتاکہ اُن کے آقا حضرات اُن سے کہیں ناراض نہ ہو جا ئیں۔ایڈوکیٹ جی این شاہین،سید سلیم گیلانی ، ایڈوکیٹ جاوید حُبی ،آغا منتظر ،جماعت اسلامی کے لگ بھگ ایک درجن اُمید وار انتخابی میدان میں ہیںم پھر بھی وہ لوگ خاموش ہیں۔اگر واقعی حریت قیادت نے اپنے اُمید وار میدان میں اُتارے ہیں تو انہیں عوام کو صاف طور پر بتانا چاہئے تاکہ وہ کل کی تاریخ میں کوئی اور بہانہ لیکر عوام کو گمراہ نہ کرسکےں۔اگر ایسا نہیں ہے تو پھر بھی انہیں واضح کر دینا چا ہیے ہمیں ان لوگوں کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے، جو انتخابی میدان میں قدم رکھ کر لوگوں سے کہتے پھرتے ہیں کہ ہمیں لیڈران کا آشیر واد حاصل ہے۔یہ بات صاف اور واضح ہے کہ وادی میں ووٹ منقسم ہو ر ہا ہے،جس کے لئے یہاں کی سیاسی پارٹیاں ذمہ دار ہو ں گی خاصکر وہ لوگ جو خود کو قوم ِکشمیر کے چیمپین سمجھتے ہیں۔