اتوار, جولائی ۶, ۲۰۲۵
22.9 C
Srinagar

سیاست کی مشروم گروتھ۔۔

جموں کشمیر اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے کے لئے جموں وکشمیرکی 24 اسمبلی نشستوں کے لئے کل 279اُمید واروں نے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کیے۔ان انتخابات میں سب سے دلچسپی کی بات یہ ہے کہ کالعدمجماعت اسلامی کے اُمیدواروں کے ساتھ ساتھ کئی دیگر علحیدگی پسند لیڈران یا اُن کے رشتہ دار میدان میں ہیں،جو آئین ہند کے تحت انتخابات میں حصہ لینایا ووٹ ڈالنا شجرممنوع قرار دے رہے تھے اور ایسے سیاستدانوں کو قومی غدار کے القاب سے نوازتے تھے۔بہر حال وقت کے ساتھ ساتھ حالات بھی تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ان انتخابات میں سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ ہر گلی اور ہر نکڑ پر ایک سیاسی لیڈر نظر آرہا ہے ۔مقامی سیاسی تنظیموں کی تعداد بڑھ چکی ہے اور ہر ایک انتخابی حلقے میں درجنوں اُمید وار کھڑے ہو رہے ہیں۔نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے درمیان انتخابی گٹھ جوڑہوتے ہی ناراض لیڈران نے پارٹیاں چھوڑ کر دوسری پارٹیوں میں شمولیت اختیار کی یا پھر بحیثیت آزاد اُمیدوار الیکشن لڑنے کا فیصلہ لیا۔ بہر حال جو نیشنل کانفرنس ایک زمانے میں کانگریس سے جُڑے لوگوں کوگندی نالی کے کیڑے مانتی تھی اور ان کے ساتھ یہ کہہ کر سوشل بائیکاٹ کا حکم جاری ہوتا تھا ، آج اُسی پارٹی کے ساتھ نیشنل کانفرنس نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے ہاتھ ملایاہے۔یہ پہلا موقع نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی اندرا۔عبدللہ اور راجیو ۔فاروق ایکارڈ ہوا ہے لیکن 1990کی ملی ٹنسی کے بعد یہاں کے سیاسی حالات یکسر تبدیل ہو گئے۔آج جس طرح گھر گھر سے لیڈران نمودار ہورہے ہیں، ایسا پہلے کبھی دیکھنے کو ملا ہے۔
یہاں یہ بات بھی مشاہدے میں آرہی ہے ہر ایک ورکر پارٹی کا لیڈر بننا چاہتا ہے، اسی لئے تنظیموں کی بھر مار ہورہی ہے۔جمہوری نظام میں اس طرح کے حالات پر کسی قسم کی قدغن نہیں لگائی جاسکتی ہے لیکن ایک بات صاف و عیاں ہے کہ اب وہ پُرانی سیاست ملک میں نہیں رہی ہے، جب علاقے میں ایک لیڈر ہوا کرتا تھا ،جو پورے علاقے میں رہا ئش پذیر عوام کی بے لوث خدمت اور ترجمانی کرتا تھا اور لوگوں کے روز مرہ کے مسائل حل کرنے میں دن رات ایک کرتاتھااور اپنا روپے پیسہ بھی خرچ کرتا تھا۔تب انہیں علاقے میں سب عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے تھے اور بغیر کسی لالچ کے اُن کے ساتھ چلتے پھرتے تھے اور اُس کو کامیاب بنانے کے لئے محنت کرتے تھے۔اس کے برعکس آج کے حالات بالکل مختلف ہیں۔آج کے ووٹران لیڈر کی حیثیت دیکھ کر اُس کے ساتھ یہ سوچ کر چلنے پر راضی ہوتے تھے کہ وہاں سے چار پیسے حاصل ہو کیونکہ اُس ووٹر کو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ کامیابی یا پھر ناکامی کی صورت میں وہ کسی سے بات تک نہیں کرے گا، ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔آج کے دور میں سیاست کے میدان میں وہ لوگ زیادہ تر شامل ہوتے ہیں،جو لوگوں سے مختلف بہانوں سے مال بٹور تے ہیں پھر سرکاری کواٹروں میں چند ایک سیکیورٹی اہلکار ساتھ رکھتے ہیں تاکہ کوئی واپسی کا تقاضا نہ کر سکے۔ان تمام حالات کو دیکھ کر مرکز کو ایک ایسا قانون بنانا چاہئے جس کی روح سے کوئی بھی اُمید وار بہتر عوامی خدمتگار اور سوشل ورکر ہونے کے ساتھ ساتھ دھوکہ باز نہ ہو ۔علاقائی سطح پر اُمید وار کی شبیہ کے بارے میں عوامی سطح پر ویری فیکیشن لازمی قرار دینی چاہیے تاکہ سیاست میں ہو رہی مشروم گروتھ پر روک لگ سکے ۔پارٹی لیڈران کو بھی اس حوالے سے سوچنا چا ہیے کہ کس ورکر اور لیڈر کو تنظیم میں شامل کیا جانا چاہیے اور کس کو نہیں! کیونکہ اقتدار کی لالچ میں آکر وہ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں ۔

 

Popular Categories

spot_imgspot_img