مانیٹرنگ ڈیسک
عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق بلنکن نے اس اعلان سے قبل پیر کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ ڈھائی گھنٹے کی طویل ملاقات کی تھی۔ امریکہ، مصر اور قطر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان مجوزہ امن معاہدے پر مہینوں مل کر کام کیا ہے۔
بہر حال، بلنکن نے مزید کہا کہ اگر حماس تجویز کو قبول کر لیتا ہے، تو بھی مذاکرات کار آنے والے دنوں میں "معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے کسی واضح مفاہمت” پر کام کریں گے۔ انہوں نے بغیر کسی وضاحت کے کہا کہ اب بھی "پیچیدہ مسائل” باقی ہیں جن کے لیے "رہنماؤں کے سخت فیصلوں” کی ضرورت ہے۔
حماس نے کہا ہے کہ اس کا یک ثالث کی حیثیت سے،امریکہ پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ وہ امریکی مذاکرات کاروں پر اسرائیل کا ساتھ دینے کا الزام لگاتا ہے۔ جس نے ایسے یہ نئے مطالبات کیے ہیں جنہیں عسکریت پسند گروپ مسترد کرتا ہے۔
بلنکن نے یہ نہیں بتایا کہ آیا اس تجویز میں غزہ کے اندر دو اسٹریٹجک راہداریوں پر کنٹرول کے لیے اسرائیل کے مطالبے پر توجہ دی گئی ہے، جس کیلئے حماس نے کہا ہے کہ یہ ایک نان اسٹارٹر ہے، یا ان دوسرے مسائل پر جنہوں نے طویل عرصے سے مذاکرات کو درہم برہم کر رکھا ہے۔
اس سے قبل اتوار کو خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ نے اطلاع دی تھی کہ امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اتوار کو اسرائیل کے شہر تل ابیب پہنچے ہیں۔
غزہ میں لگ بھگ 10 ماہ سے جاری لڑائی کے لیے جنگ بندی کی کوششوں میں نیہ ان کا نواں مشرقِ وسطیٰ کا دورہ ہے۔
وہ منگل کو مصر روانہ ہوں گے لیکن روانگی سے قبل پیر کو ان کی اسرائیل میں مذاکرات اور جنگ بندی کے حوالے سے اعلیٰ حکومتی شخصیات سے ملاقاتیں ہوں گی۔
جنگ بندی کی کوششیں
اسرائیل اور جنگ سے قبل غزہ کا انتظام سنبھالنے والی عسکری تنظیم حماس کے درمیان ثالثی کرنے والے تین ممالک امریکہ، مصر اور قطر نے جنگ بندی معاہدے کے لیے تجویز دی تھی کہ اسرائیلی فورسز غزہ میں زیادہ تر فوجی کارروائی روک دیں۔ تجویز میں یہ بھی شامل ہے کہ اسرائیلی جیلوں سے بڑی تعداد میں قیدی رہا کیے جائیں گے جس کے بدلے میں حماس اس کی تحویل میں موجود یرغمالوں کو رہا کر دے گی۔