جموں وکشمیر میں آئے روز ٹریفک حادثات میں جان و مال کا بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ ٹریفک حادثات کا یہ سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیںل رہا ہے ۔جہاں تک حکام کا تعلق ہے ،وہ صرف مرنے والوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور انہیں مالی مد د کرتے ہیں لیکن ان حادثات کو کم کرنے کے لئے کوئی ٹھوس پالیسی اختیار نہیں کی جاتی ہے،نہ ہی اس حوالے سے کسی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔جہاں تک محکمہ ٹریفک کا تعلق ہے ،وہ سال میں ایک بار ٹریفک ہفتہ مناتا ہے، شہر و قصبوں میں ایک آدھ بینر لگاتے ہیں جبکہ سرکاری سطح پر اسکولوں اور کالجوں میں سمینار ودیگر تقریبات کر کے پیسہ ہضم کیا جاتا ہے۔جہاں تک ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کی تعداد کا تعلق ہے، وہ بہت زیادہ ہے۔جہاں تک دہشت گردی اور تشدد بھرے واقعات کا تعلق ہے ،اُس سے بھی زیادہ ٹریفک حادثات میں اموات ہوتی ہیں ۔ڈوڈہ ،کپوارہ،بانڈی پورہ،اننت ناگ ،راجوری،پونچھ اور کشتواڑ جیسے پہاڑی اضلاع کے علاوہ میدانی علاقوں میں بھی خطر ناک ٹریفک حادثات رونما ہورہے ہیں۔
حکام نے اگر چہ ٹریفک انتظام کو بہتر بنانے کے لئے ٹریفک قوانن سخت بنائے ہیں اور جگہ جگہ ٹریفک سگنل لائٹس اور کیمرے نصب کئے ہیں ،تاہم پھر بھی شہر و دیہات میں ٹریفک جام اور حادثات کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کے لئے جہاں تیز رفتاری کے ساتھ گاڑی چلانے والے ڈرائیور شامل ہیں، وہیں سڑکوں کی خستہ حالی اور انتظامی غفلت شعاری کو درکنار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔شہر سرینگر اور دیگر قصبہ جات میں سڑکیں تنگ کی گئیں،تاہم فٹ پاتھوں کو بڑھایا گیا ہے ۔سمارٹ سٹی کے نام پر سرکاری خزانے کا کام تمام کیا گیا۔ان فٹ پاتھوں پر اکثر جگہوں پر دکاندار اپنی دکانوں کا مال سجاتے ہیں اور عام مسافر بیچ سڑک پر چلنے کے لئے مجبور ہو رہے ہیں۔جہاں تک دور دراز پہاڑی علاقوں کا تعلق ہے، یہاں مسافرگاڑیوں کے ڈرائیور نشہ کرکے گاڑیاں چلاتے ہیں۔انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ہے۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان پہاڑی علاقوں میں ڈرائیور حضرات بڑی تیز رفتاری کے ساتھ گاڑیاں چلاتے ہیں ۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ پرائیویٹ گاڑیوں کے ڈرائیور بھی ہم کسی سے کم نہیں کہہ کر تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہیں اور اس طرح اپنے آپ اور اپنے اہل عیال کو جان بوجھ کر موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں ۔ گزشتہ مہینے کے دوران ڈکسم اور کرنا میں اس طرح کے حادثے پیش آئے جن میں ایک ہی کنبے کے کئی افراد از جان بحق ہو گئے۔جہاں محکمہٹریفک کی اخلاقی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ شہر و دیہات میں اپنے اسکارڈز کو متحرک کرے اور گاڑیوں کی رفتار چیک کرکے ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے ، جو تیز رفتاری کے ساتھ گاڑیاں چلانے کے مرتکب پائے جائیں گے یا جو لوگ نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرتے ہوں،وہیںگاڑی چلانے والے عام لوگوں کی ذمہ داری بھی بن جاتی ہے کہ وہ اپنے جان و مال کی حفاظت خود کریںاور ہوش اور عقلمندی سے کام لیکر گاڑیاں چلائیں۔محکمہ ٹریفک کو اسکولوں اور کالجوں کی بجائے بس اڈوں اور ٹیکسی اسٹینڈوں پر سمینار اور رتربیتی کیمپوں کا انعقاد کرنا چاہئے جہاں عام لوگوں ،طلبہ اور چھوٹے بچوں کی بجائے ڈرائیوروں کی تربیت ہو سکے، جو حادثات کے اصل ذمہ دار ہوتے ہیں ۔تب جاکر یہ ممکن ہے کہ ٹریفک حادثات میں کمی ممکن ہو سکے۔
