وادی میں طویل خشک سالی اور شدید گرمی کے بعد بارشیں ہوئیں اور لوگوں نے راحت و سکون کی سانس لی۔لگ بھگ گزشتہ دو مہینوں کے دوران وادی میں بارشیں نہیں ہوئیں اور رواں سال گرمی نے سابقہ تمام ریکاڑ توڑ دیے۔شدید گرمی سے نہ صرف زمینداروں ،باغ مالکان اور چراگاہوں میں بھیڑ بکریاں اور دیگر مویشی چروانے والوں کو پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ پینے کے پانی کی کمی ہونے کے سبب شہروں اور قصبوں میں آباد لوگوں کو بھی بے حد مشکلات جھیلنے پڑے۔ندی نالے خشک ہوچکے تھے کیونکہ اکثر گلیشئر پوری طرح پگل چکے تھے۔ ماہرین کا یہی کہنا ہے کہ یہ موسمی تبدیلی ماحولیات کے ساتھ کھلواڑ کرنے سے ہوتی ہے، جس کے لئے بہرحال انسان خود ہی ذمہ دار ہے۔وادی میں اکثر موسم درمیانہ درجے کا رہتا تھا، لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران اس میں تغیر و تبدیلی آچکی ہے۔سردیوں کے موسم میں زیادہ سردی اور گرمیوں کے موسم میں حد سے زیادہ گرمی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ لوگوں نے قدرتی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ۔ندی نالوں ،دریاﺅں اور جھیلوں میں غلاظت اور گندگی ڈالی گئی،زرعی زمین پر اونچی عمارتیں کھڑی کی گئیں۔درختوں کی بے دریغ کٹائی کی گئی ۔صحت افزاءمقامات پر عالی شان ہوٹل تعمیر کئے گئے،پالیتھین کا بے جا استعمال ہو رہا ہے،پہاڑوں کی کھدائی کرکے سڑکیں اور ٹنلیںبنائی جارہی ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ موسمی تبدیلی کے اسباب یہ سب کچھ ہیں، جس کو انسان نے خود پیدا کیا ہے۔جب لوگ مسائل و مشکلات سے دو چار ہوتے ہیں، پھر وہ مساجد اور خانقاہوں کا رُخ کرنے لگتے ہیں اور توبہ و استغفار کی مجالس منعقد کرتے ہیں۔
حالیہ شدید گرمی اور خشک سالی کو دیکھ کر وادی کے لوگوں نے بھی حسب ِعادت یہی کچھ کیا ۔ہم اس عمل کی ہرگز مخالفت نہیں کریں گے اور نہ ہی ان لوگوں کو مذہبی عقائد سے روکیں گے ۔رب ِکائنات بہر حال وہ ذات ہے، جو سب چیزوں پر قدرت رکھتا ہے ،وہ چاہے ،تو کچھ بھی کر سکتا ہے ۔مگر جہاں تک اُس ذات بابرکت کے نظام کا تعلق ہے، اُس نے نظام کو مقرر کر رکھا ہے اور بنی نوع انسان کو وہ سب کچھ عطا کیا ہے، جواس کو زندگی گزارنے کے لئے درکار ہیں۔اگر انسان اُس نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا ہے اور اُس کی عطا کردہ نعمتوں کو ضائع کرتا ہے، تو انسان سے دھیرے دھیرے یہ سب نعمتیں چھین لی جاتی ہیں۔ایک زمانہ تھا جب وادی میںہر سو ہریالی ہی ہریالی نظر آتی تھی۔صاف و شفاف پانی کے ذخیرے دیکھنے کو ملتے تھے ،موسم کے مطابق چشموں کا سرد اور گرم پانی دستیاب ہوتا تھا ،تر و تازہ آب و ہوا ہوتی تھی ۔بدقسمتی سے آج سب کچھ بد لا بدلا سا نظر آتا ہے اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔بہر حال اللہ تعالیٰ کا کرم ہوا طویل وقفے کے بعد بارشیں ہوئیں جس سے نہ صرف کسانوں اور دیگر لوگوں نے را حت کی سانس لی لیکن ہمیں ان باتوں پر غور کرنا چاہیے کہ توبہ و استغفار کرنے کے بعد پھر غلطی نہیں دہرانی چاہیے بلکہ ہمیں قدرتی نظام کی حفاظت کرنی چاہئے اُس کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر بجا لانا چاہیے اور اپنے ارد گرد موجود ماحول کو صاف و پاک رکھنے کی انفرادی و اجتماعی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم قہر الہٰی سے محفوظ رہ سکیں۔
