مانیٹرنگ ڈیسک
ایران کے دارالحکومت تہران میں مقبوضہ فلسطین کی مزاحتمی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعد سرخ پرچم لہرا دیاگیاایک عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق ۔حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ آج ایرانی دارالحکومت تہران میں ہونے والے اسرائیلی حملے میں ہلاک ہوگئے، وہ ایرانی صدر محمود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے تہران میں موجود تھے۔
ایران نے قُم میں انتقام کی علامت سرخ پرچم لہرا دیاگیا۔ ایرانی پریس ٹی وی کے مطابق ایران کے مذہبی اہمیت کے حامل اہم شہر قُم کی مسجد جُمکران میں ایرانی روایات کے مطابق انتقام کی علامت سرخ پرچم بھی لہرادیا گیا ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہنیہ کے قتل کا بدلہ لینا اب تہران کا فرض ہے۔اس سے قبل 2020 میں عراق میں ایرانی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے امریکی حملے میں قتل کے بعد سرخ پرچم لہرایا گیا تھا۔
مختلف ممالک کی مذمت ،امریکا کا اظہار لاتعلقی
ترکیہ، روس، چین اور قطر سمیت کئی ملکوں نے فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے تہران میں قتل کی مذمت کی ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس قتل کے بعد غزہ میں جاری جنگ کا تنازع خطے میں پھیل سکتا ہے۔
اسماعیل ہنیہ ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے جہاں وہ بدھ کی علی الصباح قاتلانہ حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
ان کی موت ایسے موقع پر ہوئی ہے جب امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے مذاکراتی عمل جاری تھا اور جلد کسی معاہدے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔
ہنیہ کے قتل کے بعد ایران کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ترجمان ایرانی وزارتِ خارجہ ناصر کنعانی کے مطابق اسماعیل ہنیہ کی موت سے فلسطین اور مزاحمت سے ایران کا تعلق مزید مضبوط ہوگا۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے بھی ایک بیان میں اسماعیل ہنیہ کی موت کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ایک بزدلانہ اقدام اور خطرناک پیش رفت ہے۔صدر عباس نے بیان میں فلسطینی عوام پر زور دیتے ہوئے انہیں اسرائیل کے خلاف متحد اور صبر کے ساتھ ثابت قدم رہنے کی تلقین کی ہے۔
امریکہ کا اظہارِ لاتعلقی
امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اس میں ملوث نہیں ہے۔سنگاپور میں ایک ٹی وی انٹرویو میں بلنکن کا کہنا تھا کہ "ہمیں اس بارے میں نہیں جانتے تھے اور نہ ہی ہم اس میں ملوث ہیں، اس معاملے میں قیاس آرائیاں کرنا بہت مشکل ہے۔”اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت سے جنگ پر اس کے ممکنہ اثرات پر بلنکن کا کہنا تھا کہ "میں نے کئی برسوں کے دوران یہ سیکھا ہے کہ کسی واقعے کے اثرات کے بارے میں قیاس آرائی نہیں کرنی چاہیے۔”
قطر کی مذمت
قطر نے اسماعیل ہنیہ کی موت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس قتل کو گھناؤنا جرم اور کشیدگی میں خطرناک اضافے کا سبب سمجھتا ہے۔
قطری وزارتِ خارجہ کے مطابق یہ اقدام بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے قوانین کی بھی خلاف روزی ہے۔
بیان کے مطابق اسماعیل ہنیہ کا قتل اور اسرائیل کا غزہ میں مسلسل عام شہریوں کو نشانہ بنانا خطے کو افراتفری کی جانب دھکیل دے گا اور اس سے امن کے امکانات محدود ہو جائیں گے۔
چین کی مذمت
چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لی جیان نے ایک بیان میں حماس کے رہنما کی موت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بیجنگ کو اس واقعے پر شدید تشویش ہے۔بیان میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس واقعے سے ہو سکتا ہے خطے میں مزید عدم استحکام پیدا ہو۔ غزہ میں جلد از جلد جامع اور مستقل جنگ بندی ہونی چاہیے۔
خیال رہے کہ حماس، الفتح سمیت 14 تنظیموں نے گزشتہ ہفتے چین میں ایک مذاکراتی عمل کے بعد اختلافات ختم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔اسرائیل نے بیجنگ میں چین کی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے پر مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ جنگ کے بعد غزہ کی قومی مصالحتی حکومت میں حماس کو شریک نہیں کیا جائے گا۔
ترکیہ کو تنازع پھیلنے کا اندیشہ
ترکیہ کی وزارتِ خارجہ نے اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ "ایک بار پھر ثابت ہوا کہ اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی حکومت قیام امن کی خواہش مند نہیں ہے۔”
خبر رساں ادارے ’انادولو‘ کی رپورٹ کے مطابق ترک وزارتِ خارجہ نے بیان میں متنبہ کیا کہ اگر عالمی برادری نے اسرائیل کو روکنے کے اقدامات نہ کیے تو خطے کو مزید بڑے تنازعات کا سامنا کرنا پڑے گا۔بیان کے مطابق ترکیہ فلسطینی عوام کے مقاصد کی حمایت جاری رکھے گا۔
ہنیہ کی موت ناقابلِ قبول سیاسی قتل ہے: روس
روس نے اسماعیل ہنیہ کی موت کو ناقابلِ قبول سیاسی قتل قرار دیا ہے۔خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق روس کے نائب وزیرِ خارجہ میخائل بوگدانوف کا روسی میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ یہ ایک ناقابلِ قبول سیاسی قتل ہے جس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اس قتل سے غزہ میں جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی کابینہ کے رکن کا تبصرہ
اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی کابینہ میں شامل وزیرِ ثقافت عمیحائی اِلیاہو نے سوشل میڈیا پر عبرانی زبان میں ایک بیان میں کہا ہے کہ دنیا کو گندگی سے پاک کرنے کا یہی درست طریقہ ہے۔ مزید کوئی ’امن‘ یا ہتھیار ڈالنے کے معاہدے نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے سے امن آئے گا اور امن کی خواہش رکھنے والوں کے ساتھ رہنے والوں کو سکون اور تقویت ملے گی۔ان کے بقول ’’ہنیہ کی موت دنیا کو کچھ بہتر بنا دے گی۔‘‘واضح رہے کہ اسرائیل میں اتحادی حکومت قائم ہے۔ وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی کابینہ میں دائیں بازوں کی کئی سخت گیر جماعتیں شامل ہیں۔