وادی کشمیر میں اب کی بار سیاحتی سیزن اپنے جوبن پر ہے ۔لاکھوں کی تعداد میں روزانہ سیاح وادی کے مختلف صحت افزاءمقامات پر دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔گریزویلی،پہلگام ،سونہ مرگ ،گلمرگ اور بالتل میں روزانہ ہزاروں کی تعد اد میں ملکی اور مقامی سیاح سیر و تفریح کےلئے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں یاتری بھی پہلگام اور بال تل کے راستے امرناتھ گپھا تک درشن کےلئے جاتے ہیں ۔سیاحوں کی بھاری تعداد وادی میں آنے سے نہ صرف ہوٹل والوں ،گھوڑے بانوں ،ٹیکسی والوں ،ہاﺅس بوٹ مالکان اور عام دکانداروں کی اچھی خاصی آمدنی حاصل ہو رہی ہے بلکہ ان سیاحوں کی آمد سے وادی میں رونق چھا جاتی ہے ۔ان سیاحوں کو وادی میں لانے میں محکمہ سیاحت کا ایک اہم اور کلیدی رول ہے جو ملک کے مختلف شہروں میں جاکر وادی کے صحت افزاءمقامات کے بارے میں عام لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں اور ان شہروں میںسیاحتی میلے منعقد کیے جاتے ہیں جن میں تاجرکشمیری دستکاری چیزوں کے سٹال لگادیتے ہیں اور اس طرح سیاحتی صنعت کو فروغ دینے کے لئے بے حد محنتکی جارہی ہے۔وادی میں ایک ساتھ کتنی تعداد میں سیاح رہ سکتے ہیں ،ہمارے پاس کتنے ہوٹل ،ہاﺅس بوٹ اور رسٹورنٹ دستیاب ہیں ،جہاں یہ سیاح آرام سے رہ سکتے ہیں یا کھا پی سکتے ہیں ،یہ ایک اہم سوال ہے۔
مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ گریز وادی میں سنیچر وار اور اتوار کے دنوں میں سیاحوں کو یہاں رہنے کی جگہ دستیاب نہیں ہوتی ہے، جہاں تک کھانے پینے کا سوال ہے ،اس کے لئے بھی عام سیاحوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر چہ حکام نے یہاں دریائے کشن گنگا کے کنارے عارضی ٹینٹ لگانے کی اجازت مختلف کمپنگ ایجنسیوں کو دی ہے ۔ تاہم یہاں بھی پیشاب و پاخانہ کرنے کے لئے بہتر انتظام نہیں ہے ،یہی حال باقی صحت افزاءمقامات کا بھی ہوتا ہے، جہاں سیاح کھلے آسمان تلے راتیں گزارنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔یہ بات بھی مشاہدے میں آرہی ہے کہ صحت و صفائی کا ان مقامات پر کوئی خاص انتظام نہیں ہے ۔سیاح خواہ وہ ملکی سطح کے ہوں یا پھر مقامی سطح کے اپنے ساتھ پالیتھین لفافے ،پلاسٹک کی بوتلیں اور دیگر ساز و سامان ساتھ لاتے ہیں ،اس طرح ان جگہوں پر بہت زیادہ گندگی پھیل چکی ہے۔ انتظامیہ کے پاس اس کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے لئے کوئی خاص انتظام نہیں ہے ۔
یہاں یہ بات بھی کہنا بے حد لازمی ہے کہ سیاحوں کے بھاری رش کے مدنظر یہ بھی پتہ نہیں چل رہا ہے کہ کون کیا ہے؟۔انتظامیہ کو اس حوالے سے ایک ایسی دور رس پالیسی اپنانی چاہیے جس سے آسانی کے ساتھ یہ پتہ لگ جائے کی کون لوگ یہاں آرہے ہیں اور کون نہیں؟ ۔جو بھی سیاح وادی کے سیر کے لئے آتے ہیں اُن کی رجسٹریشن قبل از وقت یاتریوں کے طرز پر ہونی چاہیے اور کسی بھی صحت افزاءمقام پر صرف اتنے ہی سیاحوں کو ایک وقت میں جانے کی اجازت دینی چاہیے، جتنی وہاںپررہائشیسہولیات میسر ہیںتاکہ کسی بھی سیاح کو مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔یہ بات بھی لازمی بنانی چاہیے کہ کسی بھی سیاح کو پالیتھین بیگ یا پلاسٹک کی بوتلیں ساتھ لینی کی اجازت نہیں ہو نی چاہیے ۔سیاحوں کو اس بات کا پابند بنانا چاہیے کہ وہ کوئی بھی چیز یہاں سے بہہ رہے دریاﺅں اور ،جھرنوں میں نہ ڈالیں جس کی وجہ سے ہمارا پانی نہ صرف گندہ ہو رہا ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی بھی ہو رہی ہے جو آنے والے وقت میں تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔
