تعلیم ہی ایک ایسا نور ہے جس کی بدولت سماج میں اندھیرا چھٹ جاتا ہے اور روشنی پھیل جاتی ہے ۔کسی بھی ملک ،سماج اور معاشرے میں بدلاﺅ بہتر تعلیم سے ہی لایا جاسکتا ہے۔ تعلیم سے ہی قوموں کی ترقی اور عوام کی خوشحالی ممکن ہو پاتی ہے۔جہاں تک جموں کشمیر کا تعلق ہے یہاں بھی سرکار اس کوشش میںلگی ہے کہصد فیصد آبادی تعلیم کے نور سے منور ہو اور اب کوئی بھی شہری ناخواندہ نہ رہے، اسی لئے ایک زمانے میں یہاں تعلیمِ بالغاں کے مراکز یا سکول بھی ہوتے تھے تاکہ ہمارے بزرگ تعلیم جیسی عظیم نعمت سے منور ہو اور وہ بھی اپنی زندگی بہتر ڈھنگ سے گذار سکیں۔جہاں تک موجودہ تعلیمی نظام کا تعلق ہے ،یہ روز بروز خراب ہوتا جارہا ہے کیونکہ ہمارے پاس کوئی بہتر تعلیمی پالیسی نہیں ہے۔
اگر چہ مرکزی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی بنائی ہے لیکن جموں کشمیر خاصکر وادی میں اس کو پوری طرح سے عملایا نہیں جاتا ہے یا پھر جان بوجھ کر تعلیمی شعبے میں پنپ رہے مافیاکو طاقت ور بنانے کے لئے ایسا کیاجارہا ہے۔گزشتہ روز ناظم تعلیم نے اپنے ایک بیان میں پرائیویٹ اسکول مالکان کو انتباہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کسی بھی بچے سے ایڈمشن فیس لینے کی صورت میں مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔اس طرح کے بیانات اور حکم نامے آج تک کئی مرتبہ سامنے آئے لیکن پرائیویٹ اسکول مالکان ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں، نہ ہی ان بیانات کا ان پر کوئی اثر ہو رہا ہے۔اکثر والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں داخلہ لینے کے لئے پریشان ہو رہے ہیں اور اس کے لئے والدین کوئی بھی قیمت دینے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔اس کے پیچھے کون سے محرکات کار فرما ہیں؟ شایدناظم تعلیم اور دیگر متعلقہ حکام بھی بخوبی واقفیت رکھتے ہیں۔اعداد شمار کے مطابق وادی میں 23117سرکاری اسکول تھے جن میں پرائمری سطح ،میڈل اور ہائی سکینڈری اسکول قابل ذکر ہیں ۔ان میں اب تک تسلی بخش کام اور کم رول ہونے کی وجہ سے 4394اسکول بند کئے گئے ہیں یا پھر سرکاری لسٹ میں ان کا نام درج نہیں ہے۔یہ بھی خبر ہے کہ ان میں بہت سارے اسکولوں کو نذدیک کے پبلک اسکولوں میں مدغم کیا گیا ہے۔ جہاں تک پرائیویٹ اسکولوں کا تعلق ہے، اُن میں نہ صرف روز بروز بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ مختلف فیس میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
ہم نے کئی مرتبہ حکام کو آگاہ کیاکہ اگر سرکار چاہیے تو اُن پرائیوٹ اسکولوں کے ذمہ داروں کی لگام کس سکتی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں میں بہتر تعلیمی نظام قائم ہو اور انتظامیہ ،بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے یہاں جدید ٹیکنالوجی دستیاب رکھے۔بدقسمتی سے کہنا پڑ رہا کہ ہمارے سرکاری اسکول ابھی بھی جدید سازو سامان سے لیس نہیں ہیں ۔اچھی عمارات دستیاب نہیں ،ٹوٹے پھوٹے کمروں میں بچوں کو دن بھر رہنا پڑ رہا ہے۔یہاں یہ بات کہنا بھی لازمی بن جاتی کہ بیشتر سرکاری ملازمین اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخلہ نہیں کراتے ہیں، اُنہیں ایسا کرنے سے شرم محسوس ہورہی ہے۔ اگر واقعی سرکار نظام تعلیم میں بہتری لانا چاہتی ہے تو اُنہیں سب سے پہلے یہ حکم نامہ جاری کرنا چاہیے کہ ہر ایک سرکاری ملازم بڑا ہو یا چھوٹا اپنے بچوں کا داخلہ سرکاری سکول میں کرائےتاکہ سرکاری اسکول میں اچھی خاصی تعد اد بچوں کی ہو سکے اور اسطرح یہ بھی ممکن بن سکتا ہے یہاں ہر قسم کی جدید سہولیت میسر ہو سکے گی، جس کا فقدان ان اسکولوں میں نظر آرہا ہے۔اس طرح نہ صرف بہتر تعلیم نظام قائم ہو سکتا ہے بلکہ بہتر معاشرہ بھی بن سکتا ہے اور تعلیمی مافیا پر بھی قدغن لگ سکتی ہے جو تعلیم کے نام پر لوگوں کو لوٹ رہا ہے۔