گزشتہ دس برسوں کے دوران نل سے جل کا نعرہ بڑی تیزی اور زور و شور سے چلا آرہا ہے۔جموں کشمیرمیں اس مخصوص اسکیم کے تحت ایسے درجنوں علاقوں میں پینے کا صاف پانی فراہم کیا گیا، جو آزادی کے 77سال گزرنے کے بعد بھی پینے کے صاف پانی سے محروم تھے۔پینے کا صاف پانی انسانی زندگی کے لئے اتنا ضروری ہے جتنا کہ ہوا۔جہاں تک وادی کشمیر کا تعلق ہے خوبصورت پانی کے جھرنوں ،جھیلوں اور دریاﺅں کی وجہ سے یہ پورے ملک میں مشہور ہے ، یہاں کاتر و تازہ آب و ہوا ہر ایک ملکی اور غیر ملکی سیاح کا دل لبھاتا ہے۔بدقسمتی کا عالم ہے کہ ابھی تک کسی بھی سرکار نے ان پانی کے ذخیروں کا بہتر ڈھنگ سے استعمال نہیں کیا ، نہ ہی ان آبی ذخیروں سے یہاں کے عام آدمی کو کسی قسم کا فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ابھی تک وادی میں ایسے درجنوں علاقے موجو د ہیں، جہاں آباد لوگوں کو پینے کے لئے صاف پانی میسر نہیںہو رہا ہے۔سرکار اور انتظامیہ سے جُڑے لوگ ہر بار ریڈیو ،ٹیلی ویثرن ،اخبارات اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر یہ بیانات داغ دیتے ہیں کہ نل کے ذریعے ہر گھر تک جل یعنی پینے کا صاف پانی پہنچایا جائے گا۔شہر سرینگر کے بہت سارے علاقے پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے روز اپنی شکایات لیکر احتجاج کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں کیونکہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران سرکا ر یہاں صرف تین فلٹرریشن پلانٹ قائم کر سکی جبکہ شہری آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔آلسٹینگ،ماسٹرپلان رینگل اور پکھری بل جیسے فلٹرریشن پلانٹوں سے بھی پانی بغیر فلٹر کے سپلائی کیا جاتا ہے کیونکہ یہاں موجود ملازمین براہ راست آبپاشی نہر یا پھر ڈل کا پانی ریزروائر (ذخیرہ ٹنکی )میں اس لئے رکھتے ہے ،کیونکہ جتنا پانی شہری آبادی کے لئے درکار ہے، اتنی مقدار میں یہ پلانٹ پانی صاف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔اس طرح لوگوں کو بنا فلٹر کے پانی پینے پر مجبور کیا جاتاہے۔جہاں تک دیہی علاقوں کا تعلق ہے، وہاں کا حال توشہر سے بھی بدتر ہے۔گزشتہ دنوں ہندوارہ کے ایک گاﺅں کے چار افراد اُس وقت موت کی آغوش میں چلے گئے جب وہ کئی کلو میٹر دور پانی لانے کے لئے گئے تھے اور راستے میں اُن کی گاڑی حادثے کا شکار ہوئی۔جہاں تک دیہی علاقوں میںموجود ندی نالوں کا تعلق ہے، وہ گندگی اور غلاظت سے اس قدر متاثر ہو چکے ہیں کہ ان میں منہ ہاتھ دھونا یا نہانا تو دو ر کی بات بلکہ انسان ان میں ہاتھ بھی نہیں ڈال سکتا ہے کیونکہ بیماری کا خطرہ رہتا ہے۔
جہاں تک پانی کی کمی اور اس کی بے قدری کا تعلق ہے، اس کے لئے عام لوگ ذمہ دار ہیں ۔ انتظامیہ بھی ان ندی نالوں،آبشاروں ،چشموں اور آبپاشہ نہروں کو بچانے میں ناکام ہو گئی ہے ،اس طرح ہر جانب پانی کی قلت محسوس کی جارہی ہے۔اگر واقعی سرکار نل سے جل اسکیم کے تحت جموں کشمیر کے ہر انسان تک پینے کا صاف پانی پہنچانے کے لئے فکر مند اور وعدہ بند ہے پھر سرکار کو مزید فلٹرریشن پلانٹوں کی تعمیر عمل میں لانی ہوگی تاکہ پینے کے پانی کی قلت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دور ہو سکے اور عام لوگوں کو بھی پانی کی قدر کرنی چاہیے ،جو واقعی قدرت کا انمول تحفہ ہے۔