شرافت، سادگی ،مہمان نوازی

شرافت، سادگی ،مہمان نوازی

وادی کشمیر صوفیوں، ولیوں ،رشیوں اور منیوں کی سرزمین مانی جاتی ہے ۔یہاں کی شرافت، سادگی ،مہمان نوازی اور انسانی اقدار سے دنیا بھر کے لوگ نہ صرف متاثر ہوئے ہیں ،بلکہ دنیا کے بڑے بڑے شاعروں،ادیبوں اور سخنوروں نے اس وادی کو زمین پر جنت کا درجہ دیا ہے۔یہاں کی امن ،سلامتی اور عام لوگوں کی خوشحالی دیکھ کرملک کے دیگر شہروں میں آباد لوگ رشک کرتے تھے۔اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ہے کہ یہاں کی مذہبی رواداری اور آپسی بھائی چارے کی مثالیں دی جاتی تھےں۔یہاں کے بلند پایہ ولی کامل حضرت شیخ نورالدین نورانی ؒ کو اپنے سینے سے لگا کر لل عارفہ جیسی خدا پرست شیو مت کو ماننے والی خاتو ن نے اپنی تولد ہوتے وقت اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ نہیں پیا تھا ۔اس طرح انہوں نے اس دنیا میں آتے ہی زات پات اور اونچ نیچ کا خاتمہ کیا اور مذہبی رواداری اوربھائی چارے کا درس اہل وادی کو دیاتھا۔اس وادی میں عام لوگ صوفی روایات کے قائل تھے اور نہات ہی شرافت اور سادگی سے زندگی گذارنے کو ترجیح دیتے تھے۔لوگوں کے پاس روپیہ پیسہ نہیں تھا ،پھر بھی لوگ ایک دوسرے کی مد د ،ہمدردی اور دلجوئی کرتے تھے ۔ایک دوسرے کے غم اور خوشیوں میں شامل ہوا کرتے تھے۔زمانے نے کروٹ بدل لی لوگ دولت مند ہو گئے، لیکن اب عام لوگ تو کیا آپس میں خونی رشتہ رکھنے والے بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتے ہیں نہ ہی ایک دوسرے کی مدد فرماتے ہیں۔اہل دانش کا کہنا ہے کہ وقت ہرگز تبدیل نہیں ہوتا ہے بلکہ انسانی ذہن زنگ آلودہ ہو جاتا ہے جس سے بعد میں تباہی و بُربادی شروع ہو جاتی ہے۔آج کل وادی کے لوگ صرف دیکھا دیکھی کے عالم میں گرفتار ہو چکے ہیں۔بڑے بڑے عالی شان بنگلے تعمیر کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لی جاتی ہے بچوں کو تعلیم و تربیت کے میدان میں ایک دوسرے سے آگے دوڑنے کی تربیت دی جاتی ہے ،قرضے لیکر ایک دوسرے سے بڑی گاڑی خریدنے کی حسرت پوری کی جاتی ہے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے نہ کسی کے پاس امن و چین ہے اور نہ ہی کسی کے پاس فرصت کہ وہ ایک دوسرے کے پاس جاسکےں۔آج کل اگر کسی بچے کو امتحان میں کم نمبرات آتے ہیں تو وہ خود کشی کرتا ہے۔دولت کمانے کے چکر میں لوگ کون کون سے شارٹ کٹ لیتے ہیں، سب کو معلوم ہیں۔راتوں رات امیر بننے کے چکر میں بہت سارے لوگ کنگال بن جاتے ہیں، اُن کی اپنی جمع پونجی بھی ختم ہو جاتی ہے۔مختلف غلط طریقوں سے دولت کمانے کی دوڑ لگی ہے ۔روزانہ کروڑوں کا ہیر پھر کیا جاتا ہے۔بچوں کو بڑی بڑی ڈگریاں دلوانے کے چکر میں والدین اپنی زندگی داﺅ پر لگا دیتے ہیں ۔میاں بیوی اور بہن بھائی کے درمیان دولت اور جائیداد کی چکر میں مقدمات درج کئے جاتے ہیں ۔ بچوں کو دولت کمانے کی غرض سے سات سمندر پار بھیجا جاتا ہے۔غرض دولت کمانے کے چکر میں انسان اپنی بہترین اور حسین زندگی جہنم بنا دیتی ہے۔پھر جب زندگی اُس موڑ پر کھڑی ہو جاتی ہے جہاں بڑھاپے میں سہارے کی ضرورت ہوتی ہے تو اُس کے پاس کوئی نہیں ہوتا ہے۔وہ افسوس کرتا ہے اور روتے روتے اپنی جان جان آفرین کے حوالے کر دیتا ہے ،پھر اس انسان کی داستان نہیں رہ جاتی ہے داستانوں میں،سوائے اُن لوگوں کے جنہوں نے اپنی ساری زندگی رب العزت کی خوشنودی کے لئے دوسرے انسانوں پر صرف کی ہوتی ہے۔اہل وادی کو ان باتوں پر گہرائی سے غور و فکر کرنی چاہئے اور اپنے آپ کا محاسبہ کرنا چاہئے کہ وہ فائدے میں ہیں یا پھر نقصان میں۔ہمیں اس انمول زندگی کو صوفیوں ،ولیوں، رشیوں اور منیوں کے سانچے میں ڈال دینا چاہیے اور اُن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر خوشحال اور پُر سکون زندگی گذارنی کا ہُنر سیکھنا چاہیے،جو اربوں کھربوں جمع کر کے بھی حاصل نہیں ہو جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.