آفاتِ سماوی یعنی آسمانی حادثات، آندھی، طوفانی بارش، بجلی،اولے،پالا، برفباری وغیرہ قدرتی نظام کا ایک حصہ ہے ۔تاہم ان کی وجہ سے جان و مال کانقصان بھی ہوتاہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے کسی حد تک ان آفات کا مقابلہ کرتا ہے تاکہ کم سے کم جان و مال کا نقصان ہو سکے، مگر موجودہ دور کا انسان خود لاپرواہی سے کام لیکر اپنے پاﺅں پر کلہاڑی ما رہا ہے۔گزشتہ روز وادی کے شہر خاص علاقے میں پیش آئے آگ کی ہولناک واردات میں نہ صرف تواریخی بازار مسجد شہید ہوگئی بلکہ یہاں موجود ارد گر شاپنگ کمپلیسوں کے ساتھ ساتھ درجنوں رہائشی مکانات بھی خاکستر ہوگئے ہیں۔
آگ متاثرین کی دلجوئی اور ہمدردی کرنے کے لئے اگر چہ اس جگہ سیاستدان،سرکاری ذمہ داران اور ٹریڈ یونین لیڈران پہنچے اور میڈیا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے نہ صرف اس المناک حادثے پر دکھ و افسوس کا اظہار کیا ہے بلکہ انہوں نے متاثرین کی مدد کے لئے فوری اقدامات اُٹھانے پر بھی زور دیا ہے۔اس وادی میں ہمیشہ اس طرح کے حادثات رونما ہو رہے ہیں اور وقت کی نذاکت کو دیکھ کر ہر ایک فرد امداد اور یکجہتی کا اظہار کرتا ہے، لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں اور پھر ان متاثرین کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لئے خود ہی تگ ودو کرنی پڑتی ہے۔
وادی میں گذشتہ تین دہائیوں کے دوران اس طرح کے بے شمار واقعات دیکھنے کو ملے ،جس کسی پر مصیبت آن پڑی انہیں اپنی سبیل خود کرنی پڑی اور کسی نے اُن کی بھر پور مدد نہیں کی۔2014کے قہر انگیز سیلاب سے متاثرین آج بھی سرکاری امداد کے منتظر ہیں، جنہیں اُس وقت کی سرکار نے قسط وار مدد دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن چند اثرو رسوخ رکھنے والے افراد کی بھر پور مدد کی گئی جبکہ بہت سارے متاثرین کی صرف چند ہزار روپیوں کی پہلی قسط واگذار کی گئی اور بعد میں انتظامیہ نے امدادی فائل ہی بند کردی۔جہاں تک بہوری کدل میں پیش آئے المناک اور ہولناک آگ کے واردات کا تعلق ہے، اس کے لئے عام لوگ بہت زیادہ حد تک ذمہ دار ہیں۔فائر اینڈ ایمر جنسی محکمے کا جہاں تک تعلق ہے ،آگ کو فوری قابو کرنے کے لئے اُن کے پاس جدید ساز و سامان اور گاڑیاں دستیاب ہیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ عملہ صفاکد ل اور حبہ کدل سے وقت پر نہیں پہنچا۔کہا جارہا ہے کہ ایک طرف سمارٹ سٹی کی خستہ حال سڑکیں اس کے لئے ذمہ دار ہیں اور دوسری جانب بد ترین ٹریفک جام ہے۔
شہر خاص کے اکثر علاقوں میں دکاندار ،خریدار اور یہاں رہنے والے لوگ اپنی چھوٹی بڑی گاڑیاں سڑکوں پر پارک کرتے ہیں، اس طرح ان علاقوں میں ہمیشہ ٹریفک جام ہوتا ہے ۔فٹ پاتھوں تک کو بھی نہیں بخشاجا رہا ہے ،دکاندار ان پر بھی قبضہ جماتے ہیں۔لوگ ٹریفک قوانین پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ان علاقوں میں ایک بھی ٹریفک اہلکار نظر نہیں آ رہا ہے کیونکہ ٹریفک محکمے کو صرف اُن راستوں پر نظر ہو تی ہے جہاں سے وی آئی پی لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے۔
بہوری کدل آگ واردات کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ گیس سلنڈر پھٹنے سے یہ حادثہ پیش آیا ہے جس نے منٹوں میں پوری بستی کو اپنے لپیٹ میں لے لیا اور اس طرح آگ بُجھانے والا عملہ بھی دھیر سے جائے واردات پر پہنچا اور اس دوران آگ نے اپنا کام کیا اور کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔حکمرانوں اور انتظامی افسران کی اخلاقی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اس طرح کے حادثات روکنے کےلئے جامعہ منصوبہ تیار کریں۔شہر خاص اور دیگر گنجان آبادی والے علاقوں میں پانی کو ذخیرہ کریں،سڑکوں کی تنگ دامانی کا سد باب کریں اورشہری علاقوں میں پارکنگ کے معقول انتظامات کریں تاکہ ٹریفک جام سے نجات مل سکے، جو بہوری کدل جیسے حادثات پیش آنے میں سب سے بڑی دقعت بن جاتی ہے۔