وادی میں شدید گرمی کے بیچ میلہ کھیر بھوانی کا تہوار قریب آرہا ہے اور اس حوالے سے ضلع انتظامیہ گاندربل یاتریوں کی سہولیات کے لئے ہر ممکن قدم اُٹھانے کےلئے نہ صرف کوشاں ہے بلکہ مقامی لوگ بھی بیتابی کے ساتھ اس دن کا انتظار کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے کشمیری پنڈت دوستوں اور ہمسایوں کے ساتھ روبرو ہو سکں،جو تین دہائی قبل اُن سے ملی ٹنسی کی وجہ سے جُدا ہو ئے ہیں۔وادی کشمیر جو پورے ملک میں ایک ایسی جگہ مانی جاتی ہے جہاں کشمیری پنڈت اور مسلمان سگے بھائیوں کی طرح رہتے تھے ، ایک دوسرے کے سکھ دکھ اور خوشیوں میں شامل ہوتے تھے ۔
پورے ملک میںکشمیر کے اس ہندو۔ مسلم بھائی چارے کی مثالیں دی جاتی تھیں اور تقسیم ملک کے وقت تحریک آزادی ہند کے بانی اور قد آور لیڈر مہاتما گاندھی نے بھی ملک کے عوام کو یہ پیغام سُنایا تھا کہ مجھے امن اور روشنی کی کرن کشمیر سے نظر آرہی ہے، جہاں کسی قسم کا فساد رونما نہ ہو سکا ،جب متحدہ بھارت میں ہندومسلم کے نام پر لوگ ایک دوسرے کو جانوروں کی طرح قتل کررہے تھے۔وادی میں گزشتہ5برسوں سے پوری طرح امن قائم ہو چکا ہے معمولی واقعات کو چھوڑ کر کسی قسم کا احتجاج،ہڑتال یا پتھراﺅ دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے، نہ ہی لوگوں میں وہ خوف و ڈر کہیں نظر آرہا ہے، جو گزشتہ 25برسوں کے دوران نظر آ رہا تھا۔
اب عام لوگ بنا کسی رکاوٹ کے دن رات کام کرتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح وادی کے صحت افزاءمقامات پر سیر و تفریح کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔مرکزی حکومت نے کشمیری پنڈتوں کی وطن واپسی کے لئے منصوبے بنائے تھے اور وزیر اعظم خصوصی پیکیج کے تحت ہزاروں پنڈتوں کو سرکاری ملازمتیں بھی فراہم کی گئیں۔ تاہم کسی بھی کشمیر ی پنڈت نے اپنے آبائی گھر آکر اپنی زمین جائیداد آباد نہیں کی اور نہ ہی وہ سرکاری کواٹروں کو چھوڑ کر اپنے پُرانے ہمسایوں کے ساتھ گل ملکر رہائش کرسکیں۔میلہ کھیر بھونی کے بہانے لاکھوں کی تعداد میں ملک کے مختلف حصوں میں آباد کشمیری پنڈت کشمیر وارد ہوتے ہیں اور اپنے اپنے آبائی علاقوں میں جا کر اپنے پُرانے ہمسایوں سے ملتے ہیں اور اور ایک دوسرے کے تئیں پیار، محبت اور بھائی چارے کا اظہار کرتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ امن و خوشحالی کے باوجود یہ کشمیر ی پنڈت اپنے گھروں میں آکر رہائش نہیں کرتے ہیں۔ایک بات صحیح ہے کہ چند لوگوں نے اپنی زمین جائیداد اور مکان فروخت کئے ہیں لیکن ہزاروں لوگوں کی زمین جائید ادیں ابھی بھی موجود ہ ہیں۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اُن کے بچے ملک کی مختلف کمپنیوں میں اچھا خاصہ روز گار کماتے ہیں اور انہیں ان باتوں کا ڈر محسوس ہو رہا ہے کہ وہ کشمیر آکر کون سا کام کریں گے؟۔اگر وہ اپنے آبائی وطن واپس آکر روز گار تلاش کرنے کی کوشش کریں گے، تو وہ بھی مسلمان بھائیوں کی طرح پھر سے آباد ہو سکتے ہیں، اس کے لئے جُرات اور ہمت سے کام لینا پڑے گا، تب جاکر اُن کے خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتے ہیں ۔اس طرح کی کمزور سوچ انہیں کبھی واپس آنے نہیں دے گی۔جب تک یہ لوگ اپنے اپنے آبائی علاقوں میں نہیں بس جاتے ہیں ،تب تک سرکار سے روزگار کے وسائل حاصل کرنا ناممکن ہی نہیں بلکہ مشکل ہے۔
سرکا رکو ان پنڈتوں کی وطن واپسی کے لئے ایک مضبوط اور کارگر منصوبہ بنانا چاہیے تاکہ یہاں رہ کر اُن کا روزگار چل سکے۔جن کے پاس اپنی زمین یا مکان نہیں ہے ایسے لوگوں کو ہی سرکاری رہائشی کالنیوں میں جگہ فراہم کرنی چاہیے ۔تب جاکر یہ ممکن ہے کہ ساری پنڈت برادری اپنے آبائی وطن واپس آسکے گی ۔وادی کی مسلم برادری کو بھی انہیں گلے لگا کر ہمت اور حوصلہ دینا چاہیے تب جا کر کشمیر میں پھر ایک بار وہ پُرانا بھائی چارہ قائم ہو جائے گاجس کی نظیر میلہ کھیر بھوانی کے دوران دیکھنے کو ملتی ہے۔