پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاںنواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج نے بھارت کے ساتھ ہوئے امن معاہدے کی خلاف ورزی کر کے کرگل جنگ کو جنم دیا تھا ،جو پاکستان کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوا۔نواز شریف نے ان خیالات کا اظہار اُس وقت کیا ،جب انہیںاپنی پارٹی ( پاکستانمسلم لیگ ن) کا صدر بلامقابلہ منتخب کیا گیا۔پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پاکستانمسلملیگ(ن) کے نو منتخب صدر نے یہ بات میڈیا کے سامنے 25 سال بعد کہی ۔1999میں بھارت کے اُس وقت کے وزیر اعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپئی نے پاکستان جا کر امن اور آپسی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے امن معاہدے پر دستخط کئے تھے ۔وہ ایک دور اندیش اور قوم پرست لیڈر تھے ،جو ہمیشہ یہ بات کہتے تھے کہ دوست کو بدلا جاسکتا ہے لیکن ہمسایہ کو نہیں۔انہیں اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ پاکستان اُن ہی کے ملک کا ایک حصہ ہے جو نہ صرف ہمسایہ کی حیثیت رکھتا ہے ،بلکہ ایک چھوٹے بھائی سے کم نہیں۔
واجپئی جی کے دور کو نہ صرف بھارت کے لئے ایک سنہری دور مانا جاتا ہے بلکہ پاکستان کے لئے بھی یہ دور اس لئے اہم ماناجاتا ہے ،جب انہوں نے اس ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ تمام تلخیاں ختم کر کے اس ملک کے حکمرانوں کے ساتھ ہاتھ ملایا اور انہیں سدھرنے کا موقعہ فراہم کیا تھا ۔ اس طرح بڑے بھائی کا رولنبھایا تھا۔انہوں نے دو طرفہ مذاکرات کی نہ صرف بحالی عمل میں لائی تھی بلکہ انہوں نے اس ہمسایہ ملک کے ساتھ دوطرفہ تجارت کو بھی فروغ دینے کے لئے زبردست محنت کی۔پاکستان کے لئے بد قسمتی کا یہ عالم رہا کہ اس ملک کی فوج نے کبھی بھی سیاستدانوں کے تابیہ کام نہیں کیا جس کا نتیجہ دنیا کے سامنے ہے کہ اس ملک نے آج تک پانچ جنگیں بھارت کے خلاف لڑیںاور ہر بار ہار کا سامنا کرنا پڑا۔آج جب کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور سابقہ وزیر اعظم اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اُ نکی فوج نے امن معاہدہ توڑ کر کرگل میں دراندازی کی جو بعد میں زبر دست جنگ میں تبدیل ہوئی ،اُس وقت پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف ہی ملک کے وزیر اعظم تھے۔اُن کے اس بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی جمہورےت کو پھلنے پھولنے نہیں دیا گیا اور نہ ہی اس ملک میں کبھی فوج نے عوامی حکومت تسلیم کیا۔اس بات کا اندازہ یہاں سے بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ہوئے حالیہ عام انتخابات میں کس قدر دھاندلیاں کی گئیں ۔فارم 45کس طرح الیکشن کمیشن نے تبدیل کر وائے اور کس طرح جیتے ہوئے اُمید واروں کو ہرایا گیا اور کس طرح ایک عوامی لیڈر کو مختلف کیسوں میں اُلجھا کر جیل مقید کر دیا گیا۔غرض پاکستان میں عام آدمی کے ووٹ کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔
جہاں تک بھارت کا تعلق ہے کہ گذشتہ دو مہینوں سے یہاں لوک سبھا کے انتخابات منعقدہو رہے ہیں اور کل ان انتخابات کا آخری مرحلہ یکم جون کو ہو نے جا رہاہے ۔ابھی تک ان انتخابات میں کوئی ایسا حادثہ پیش نہیں آیا کہ لگے کہ اس ملک میں الیکشن کمیشن کسی مخصوص پارٹی کی مدد کرتا ہے۔ملک میں چند ایک جگہوں پر چھوٹے موٹے واقعات پیش آئے کہ ووٹروں نے آپس میں ہاتھا پائی کی یا کسی لیڈر نے پولیس اہلکاروں یا پولنگ افسروں کو اپنا دم خم دیکھا یالیکن جس طرح پاکستان میں جمہوریت کے نام پر آمریت چلائی جاتی ہے، وہ اس ملک میں ہر گز قبول نہیں کی جاسکتی ہے۔پاکستان کے حکمرانوں کو بھارت سے سبق حاصل کرنی چاہئے کہ جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے اور کس طرح فوج اور دیگر حفاظتی ایجنسیوں کو عام انتخابات میں مداخلت سے دور رکھنا چاہئے تاکہ یہ ملک بھی ترقی اور خوشحالی کی اور آگے بڑھ سکے جہاں کے عوام فی الحال روزی روٹی کے لئے ترس رہے ہیں۔