محتاج ،غریب اور یتیم ۔۔۔۔۔

محتاج ،غریب اور یتیم ۔۔۔۔۔

اسلام پوری دنیا کے لئے مکمل نظام حیات ہے۔ اسلام میں ہر ایک کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑا۔ہر ایک کے لیے ایسے اسباب و ذرائع ابلاغ مہیا کر دئے ہیںکہ اللہ تعالیٰ کے بندے آسانی کے ساتھ زمین پر رہ کر اپنی زندگی کے شب و روز شائستگی اور شگفتگی کے ساتھ بسر کر سکے۔یتیم و مفلس ونادار اور لا وارث بچوں کے بھی معاشرتی حقوق ہیں۔ان کی مکمل کفالت اور ان کے حقوق کی پاسداری ہے۔اور اس سے صرف نظر کر لینا ان کے حقوق کے تقدس کی پامالی ہے، اسلامی تعلیمات ہر طرح سے اپنے چاہنے والوں کے لیے مکمل نظام زندگی بیان کرتی ہے چاہیے وہ معاشراتی زندگی ہو یا کہ سیاسی زندگی ہو یا انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی ہو اس وقت جو بات موضوع بحث ہے ،وہ ہے معاشرے کے ایک خاص حکم کی جو ہمارے معاشرے کو تباہ وبرباد ہونے سے روکتا ہے۔غرباءو یتموں اور مساکین کی دل جوئی اور ان سے الفت و محبت ان کی ضروریات زندگی کا پاس و لحاظ اور ہمدردی و غمگساری اسلام کی ایسی پاکیزہ تعلیمات ہیں جو معاشرے کو تباہ وبرباد ہونے سے بچاتی ہیں۔
محتاجوں، غریبوں، یتیموں، اور ضرورت مندوں کی مدد،مزاج پرسی، حاجت روائی اور اور دل جوئی کا پس و لحاظ کرنا اسلام کا بنیادی درس یانقطہ نظر ہے۔ دوسروں کی امداد کرنا اور ان کے ساتھ حتی المقدور تعاون کرنا ان کے لیے روز مرہ کی ضرورت کی اشیاءفراہم کرنا دین اسلام نے کار ثواب اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا نسخہ کیمیا بتایا ہے۔خالق کائنات اللہ عزوجل نے امیروں کو اپنے مال میں سے غریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے، صاحب استطاعت پر واجب ہے کہ وہ مستحقین کی مدد کرے۔بخاری ومسلم شریف کے مطابق ان کے رب کی طرف سے اس کے بدلے میں گناہوں کی معافی اور ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔خرچ کرو تم پر خرچ کیا جائے گا یعنی خدا کی راہ میں دو تمہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ملے گا ۔
سماجی کامیابی کا بنیادی مقصد معاشرے کے محتاجوں، بکسوں، اور معزورں ،بیماروں، بیواو¿ں، غریبوں،یتیموں لوگوں کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح و کامرانی ہے اور ضروریات زندگی کا خیال رکھنا درس عظیم ہے۔اسلامی تعلیمات کا اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں اس حوالے سے متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے حکم دیا ہے، ان کی دل جوئی کی جا ئے انہیں بے سہارا نہ چھوڑا جائے مگر ایک بات کا ہم سب کو خصوصیت کے ساتھ خیال رکھنا چاہیے، انہیں صدقات و خیرات و عطیات دے کر ان پر احسان نہ جتایا جائے کیونکہ دے کر احسان جتانا تمہاری نیکی کو برباد کر دے گا۔ہم یہ جو ایک دو روپیہ یا زیادہ سے زیادہ دس بیس روپیہ کسی غریب و محتاج کو تھما دیتے ہیں اس سے تو ممکن ہی نہیں کہ یہ اپنی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ بہتر یہ ہوتا کہ اگر ہم ان کی کم از کم کوئی ایسی ضرورت خود ہی پوری کرتے جو ان کو حاجت ہوتی ،یہ بات بھی کوئی فرض عین نہیں ہے کہ جو صدقہ فطر کی رقم مقر کی گئی ہے۔ اس سے زائد ایک روپیہ بھی نہیں دینا ہے ۔لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنی خوشیوں کیساتھ ساتھ ان کو بھی شامل خوشی کریں ،جو خوشیاں منانے سے محروم رہتے ہیں ۔مدد کا ہاتھ بڑھائے ،اللہ تعالیٰ بڑا انعام دینے والا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.