شب قدر : ہزار مہینوں سے افضل رات 

شب قدر : ہزار مہینوں سے افضل رات 
مجاہد عالم ندوی
     اسلام کی پانچ بنیادی تعلیمات میں توحید ، نماز ، زکوٰۃ اور حج کے ساتھ ماہ رمضان کے روزوں کا بھی شمار ہے ، ماہ رمضان بڑی فضیلتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے ، اس مہینہ میں اہل ایمان کی طرف اللّٰہ تعالٰی کی خصوصی رحمتیں متوجہ ہوتی ہیں ، احادیث و آثار میں رمضان شریف کے بڑے فضائل اور برکات مذکور ہیں ۔
      احادیث کے مطابق رمضان کے تین عشرے تین مختلف خصوصیات کے حامل ہیں اور ہر ایک پر خصوصی رنگ غالب ہے ،  حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے ، دوسرا عشرہ مغفرت کا اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا۔ (صحیح ابن خزیمہ ، حدیث 1780، بیہقی شعب الایمان )
     یوں تو رمضان کا پورا مہینہ دیگر مہینوں میں ممتاز اور خصوصی مقام کا حامل ہے ، لیکن رمضان شریف کے آخری دس دنوں ( آخری عشرہ ) کے فضائل اور بھی زیادہ ہیں ، نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت و طاعت ، شب بیداری اور ذکر و فکر میں اور زیادہ منہمک ہو جاتے تھے ، احادیث میں ذکر ہے ، ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اتنا مجاہدہ کیا کرتے تھے جتنا دوسرے دنوں میں نہیں کیا کرتے تھے ۔( صحیح مسلم، حدیث 2009 ) سنن ابن ماجہ ، صحیح ابن خزیمہ اور مسند احمد میں بھی اسی مفہوم کی احادیث مروی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کے اخری عشرہ میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے معمولات دیگر ایام کے مقابلہ میں بڑھ جاتے تھے۔
     دیگر احادیث میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے معمولات کی تفصیلات ملتی ہیں ، جیسا کہ اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آخری عشرہ شروع ہو جاتا تو نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم رات بھر بیدار رہتے اور اپنی کمر کس لیتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔ (صحیح بخاری ، حدیث : 1884 ، صحیح مسلم ، حدیث : 2008 ) شعب الایمان بیہقی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ مہینہ ختم ہونے سے پہلے بستر پر نہیں آتے تھے۔ (حدیث :3471 )
     راتوں کو اٹھ کر عبادت کرنے کا معمول آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا تو ہمیشہ سے ہی تھا ، لیکن رمضان میں آپ کمر کس کر عبادت کے لیے تیار ہو جاتے اور پوری پوری رات عبادت میں گزارتے ، یہ مضمون حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کی ایک دوسری روایت سے اور زیادہ واضح ہوتا ہے ، وہ بیان فرماتی ہیں : مجھے یاد نہیں کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کبھی بھی ایک ہی رات میں پورا قرآن مجید پڑھا ہو یا پھر صبح تک عبادت ہی کرتے رہے ہوں ، یا رمضان المبارک کے علاوہ کسی اور مکمل مہینہ کے روزے رکھے ہوں ۔ ( سنن نسائی ، حدیث : 1336 )
     دوسرا خصوصی معمول جس کا ذکر حدیث میں ہے وہ ہے اپنے اہل خانہ کو رات میں عبادت کے لیے جگانا ، احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کو سارا سال ہی جگایا کرتے تھے ، لہٰذا رمضان المبارک میں خصوصیت کے ساتھ جگانے کے ذکر کا صاف مطلب یہی ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنی گھر والوں کو باقی سارے سال کی بہ نسبت جگانے کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے ۔
اعتکاف : مسجد میں بہ نیت عبادت قیام
     رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی ایک اہم خصوصیت اعتکاف ہے ، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا مبارک معمول تھا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔ حضرت ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رمضان شریف کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے۔ (بخاری، حدیث : 1885 ) صحیح بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے حتیٰ کہ اللّٰہ تعالٰی نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا ، پھر ان کے بعد ان کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا ۔ ( بخاری، حدیث : 1886 ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہر سال رمضان شریف میں دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے ، اور جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دنوں کا اعتکاف فرمایا۔ ( بخاری ، حدیث : 1903 )
     آخری عشرہ کا اعتکاف ( یعنی مسجد میں عبادت کی نیت سے قیام ) سنت علی الکفایہ ہے ، اعتکاف مسجد کا حق ہے اور پورے محلہ والوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ان کا کوئی فرد مسجد میں ان دنوں اعتکاف کرے ، اعتکاف کرنے والے کے لیے مسنون ہے کہ وہ طاعات میں مشغول رہے اور کسی شدید طبعی یا شرعی ضرورت کے بغیر مسجد سے باہر نہ نکلے ، اعتکاف کی حقیقت خالق ارض و سماء اور مالک الملک کے دربار عالی میں پڑ جانے کا نام ہے ، اعتکاف، عاجزی و مسکنت اور تضرع و عبادت سے اللّٰہ کی رضا و خوشنودی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے ، اعتکاف در اصل انسان کی اپنی عاجزی کا اظہار اور اللّٰہ کی کبریائی اور اس کے سامنے خود سپردگی کا اعلان ہے۔
     احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم آخری عشرہ کا اعتکاف خاص طور پر لیلتہ القدر کی تلاش اور اس کی برکات پانے کے لیے فرماتے تھے ، حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رمضان کے آخری دس دنوں میں لیلتہ القدر کو تلاش کرو ۔ ( صحیح بخاری ، حدیث : 1880 )
حضرت ابو سعید خدری رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی روایت میں تفصیل ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا اور ہم نے بھی اعتکاف کیا ، حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کو جس کی تلاش ہے وہ آگے ہے ، چنانچہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دوسرے عشرہ کا بھی اعتکاف کیا اور ہم نے بھی کیا ، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو بتایا کہ مطلوبہ رات ابھی آگے ہے ، چنانچہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا : جو میرے ساتھ اعتکاف کر رہا تھا اسے چاہیے کہ وہ آخری عشرے کا اعتکاف بھی کرے ، مجھے شب قدر دکھائی گئی جسے بعد میں بھلادیا گیا
، یاد رکھو لیلتہ القدر رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں ہے ۔ (صحیح بخاری ، حدیث : 771 )
لیلتہ القدر : ہزار مہینوں سے بہتر رات
     رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی سب سے اہم فضیلت و خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک ایسی رات پائی جاتی ہے جو ہزار مہینوں سے بھی زیادہ افضل ہے اور اسی رات کو قرآن مجید جیسا انمول تحفہ دنیائے انسانیت کو ملا ، اللّٰہ سبحانہ و تعالٰی نے اس رات کی فضیلت میں پوری سورہ نازل فرمائی ، ارشاد ہوا : ” ہم نے قرآن کریم کو شب قدر میں نازل کیا ہے ، آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح ( جبرئیل ) اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں ، یہ رات سراسر سلامتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔”  (سورہ القدر 97:1-5 )
      ایک دوسری آیت میں اس کو مبارک رات کہا گیا ہے ، ارشاد ہے : ” قسم ہے اس کتاب کی جو حق کو واضح کرنے والی ہے ، ہم نے اسے ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے "۔  ( سورہ الدخان 44 : 2 )
     چنانچہ شب قدر کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینوں (یعنی کم و بیش تراسی سال) کی عبادت سے زیادہ ہے ، نیز اسی رات اللّٰہ تعالٰی نے قرآن مجید کو یکبارگی لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازل فرمایا اور پھر اس کے بعد نبوت کی 23 سالہ مدت میں حسب ضرورت نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا ،  انھیں آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس رات کو ملائکہ نزول کرتے ہیں اور اللّٰہ تعالٰی سال بھر کے تقدیر کے فیصلے فرشتوں کے حوالے فرما دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے اپنے وقت پر ان کی تکمیل کرتے رہیں ، اس رات میں فرشتوں کا نزول بھی رحمت و برکت کا سبب ہوتا ہے۔
     لیلتہ القدر کا مطلب ہے قدر اور تعظیم والی رات ہے یعنی ان خصوصیتوں اور فضیلتوں کی بنا پر یہ قدر والی رات ہے ، یا پھر یہ معنی ہے کہ جو بھی اس رات بیدار ہوکر عبادت کرے گا وہ قدر وشان والا ہوگا ، تو اللّٰہ تعالٰی نے اس رات کی جلالت و منزلت اور مقام و مرتبہ کی بنا پر اس کا نام لیلتہ القدر رکھا کیونکہ اللّٰہ تعالٰی کے ہاں اس رات کی بہت قدر و منزلت ہے۔ شب قدر کی فضیلت بے شمار آیات و احادیث سے ثابت ہے۔ صحیحین کی حدیث میں ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص شب قدر کو ایمان اور اجر و ثواب کی نیت سے عبادت کرے ، اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ ( صحیح بخاری ، حدیث : 1768 )
     حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ مہینہ ( رمضان کا ) تم کو ملا ہے ، اس میں ایک رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، جو اس سے محروم رہا گویا وہ تمام خیر سے محروم رہا ، اور اس کی خیر و برکت سے کوئی محروم ہی بے بہرہ رہ سکتا ہے ۔” ( سنن ابن ماجہ ، حدیث : 1634 )
     مسلمانوں کو ترغیب و تاکید ہے کہ وہ اس رات کو اللّٰہ تعالٰی کی عبادت کریں ، رات کو دعا و عبادت اور ذکر و تلاوت میں گزاریں ، نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اسی مبارک رات کی تلاش کے لیے اعتکاف فرماتے تھے اور رمضان کے آخری عشرہ میں پوری پوری رات عبادت میں مشغول رہتے تھے ، نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سید الرسل اور محبوب رب العالمین تھی ، وہ اللّٰہ کے نزدیک مقبول اور بخشے بخشائے تھے ، لیکن پھر بھی اللّٰہ کی رضا کی تلاش میں آپ اتنی جدو جہد فرماتے تھے ،  آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے۔ اللّٰہ تعالٰی کی رحمت و مغفرت کے ہم بہت زیادہ محتاج ہیں ، لہٰذا! ہمیں اس رات کی تلاش و جستجو کرنا چاہیے اور آخری عشرہ کی راتوں کو ذکر و عبادت میں گزارنا چاہیے۔
     اس رات کو رمضان اور خاص کر اس کے آخری عشرہ میں تلاش کرنا مستحب ہے ، حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری دس دنوں میں تلاش کرو۔ (صحیح بخاری، حدیث: 1880 )
      ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شب قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں تلاش کرو ، باقی نو رہ جائیں تو ان میں ، باقی سات رہ جائیں تو ان میں ، باقی پانچ رہ جائیں تو ان میں۔ ( صحیح بخاری ، حدیث : 1881 ) پھر احادیث کی روشنی میں شب قدر کے آخری عشرہ میں بھی طاق راتوں میں وقوع کا زیادہ امکان معلوم ہوتا ہے ، حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ ( صحیح بخاری ، حدیث: 1878 ) جب کہ بعض احادیث میں ستائیسویں رات کو شب قدر ہونے کی بات بھی وارد ہوئی ہے ، جیسا کہ حضرت معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کی روایت میں ہے کہ شب قدر ستائیسویں رات ہے۔ ( سنن ابوداود ، حدیث : 1178، مسند احمد وغیرہ)
  حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر مجھے شب قدر کا علم ہو جائے تو میں کیا دعا کروں؟ تو نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنی) اے اللّٰہ تو معاف کرنے والا کرم والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے ، لہٰذا مجھے معاف کر دے ) (سنن ترمذی ، حدیث : 3435 ، مسند احمد وغیرہ)
     حضرات محدثین و علماء فرماتے ہیں کہ شب قدر سے متعلق روایات کثرت سے مروی ہیں اور ان کے مجموعہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ شب قدر ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے ، اور طاق راتوں میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے جب کہ ستائیسویں رات میں اور زیادہ ، اللّٰہ تعالٰی نے اپنی بے پایاں مصلحت و حکمت سے شب قدر کو مخفی رکھا ہے ، اس کو مخفی رکھنے میں شاید ہماری طلب اور ذوق جستجو کا امتحان مقصود ہے ، اگر کوئی شخص خلوصِ نیت اور صدقِ دل سے کوشش کرے ، چاہے اسے علم ہو یا نہ ہو ، تو ان شاء اللّٰہ وہ محروم نہیں رہے گا ، اہل ذوق کے یہاں تو سارا معاملہ ذوقِ طلب اور شوقِ جستجو ہی کا ہے ، بقول وحشت کلکتوی :
نشانِ  منزلِ جاناں ملے  ملے ، نہ ملے
مزے کی چیز ہے یہ ذوقِ جستجو میرا

Leave a Reply

Your email address will not be published.