شریک حیات___افسانچہ

شریک حیات___افسانچہ
تحریر: ہلال بخاری
فتح بابا ایک زندہ دل بزرگ کا نام تھا جو ہمارے علاقے کا ایک مقبول باشندہ تھا۔ ایک دن بہار کے موسم میں میں کسی کام سے ان کے گھر جارہا تھا۔ جب میں ان کے مکان کے  مین گیٹ کے اندر داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ ہر سو پارک میں رنگین و دلکش پھول کھلیں ہیں، پرندے سریلی آوازوں میں گنگنا رہے ہیں اور شہد کی مکھیاں پھولوں کو محبت سے چومنے میں مگن ہیں۔
پھر میری نظر اس پارک میں بیٹھے فتح بابا پر پڑی تو میں بہت حیران ہوا۔
فتح بابا کے سفید بالوں پر سورج کی روشنی چمک کر اس انداز میں ریفلکٹ ہورہی تھی جیسے اس کا سر بھی خورشید تاباں کا ایک ٹکڑا بنا ہوا تھا۔
مگر اصل حیرت مجھے تب ہوئی جب میں نے اس کی گود میں سر رکھ کر اس کی بیوی کو لیٹا ہوا پایا۔ فتح بابا محبت سے اپنی بیوی کے سفید بالوں میں اپنی عمر رسیدہ انگلیوں کو اس طرح پھیر رہا تھا کہ جیسے وہ دونوں کچھ دن کے ہی شادی شدہ ہوں۔
ان کو دیکھ کر میں پھر ایک بار اپنے نجی مسائل کا تجزیہ کرنے لگا۔
ہم اکثر اس بات پر متفق ہوتے ہیں کہ ہر ایک انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی ہم اکثر ان ہی لوگوں کی خوبیاں یکسر نظر انداز کرکے انکی خامیوں پر ساری توجہ مرکوز کرتے ہیں جنکو ہم اپنے تصور کرتے ہیں۔ اکثر ہم یہ ذیادتی اپنے یا اپنی ہم سفر یا جیون ساتھی کے بارے میں کرتے ہیں۔ ایسا ہی میں بھی کیا کرتا تھا۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد مجھے اپنی ذوجہ صرف خامیوں کا ایک بے کار مجسمہ نظر آنے لگی تھی۔ میں اسکے جزبات کو ڈراما سمجھ کر نظر انداز کرتا تھا اور اس کی خوبیاں مجھے بے وقعت نظر آتی تھیں۔ نتیجہ یہ نکلنے لگا کہ ہماری محبت اور شفقت دھیرے دھیرے الجھن اور نفرت میں بدلنے لگی۔
رنجشوں نے ہماری زندگی کو اجیرن بنانا شروع کیا اور آئے روز ہم ایک دوسرے سے جھگڑنے لگے۔ ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے بچے اور دوسرے اہل خانہ بھی ہماری ان رنجشوں کی وجہ سے پریشان رہنے لگے۔
ہماری اپنی انا ان موقعوں پر ہمارا بہت نقصان کرتی ہے مگر ہم اس بات کو سمجھ نہیں پاتے۔  ہم اکثر اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا اپنی ہار تصور کرتے ہیں اور ہار جانا ابن آدم کو ہمیشہ برا لگا ہے۔
ان رنجشوں کی وجہ سے ہماری ذہنی خلش دن بہ دن بڑھنے ہی لگی اور ہم ایک دوسرے کا ساتھ بوجھ لگنے لگا اور زندگی بے معنی اور عزاب نظر آنے لگی۔
لیکن رب کا احسان ہو تو کوئی ایک چھوٹا سا واقعہ بھی ہمارے لئے رحمت کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ شاید یہ واقعہ جو اس دن اس دلکش باغ میں میرے ساتھ پیش آیا میرے لئے رحمت کے دروازوں کو وا کرنے والا تھا۔
فتح بابا کی نظر مجھ پر پڑی تو اس نے مسکرا کر اشارہ کرتے ہوئے کہا،
” دیکھ کیا رہے ہو بیٹا،  آجاو !”
اس کی یہ بات سن کر اس کی ذوجہ محتاط انداز میں اس کی گود سے سر اٹھا کر اپنے سفید بالوں کو ڈھکنے کے بعد اٹھ بیٹھی۔
” آپ کا آپس میں یہ والہانہ لگاؤ دیکھ میں حیران ہوگیا۔” میں نے انکے قریب جاکر اچانک خود کو یہ کہتے ہوئے پایا، اگرچہ میں شاید یہ بات انکے سامنے کہنا نہیں چاہتا تھا۔
یہ سن کر فتح بابا نے مسکرا کر جواب دیا،
"عظمیٰ میری شریک حیات ہے اور شریک حیات کا مطلب بہت گہرا ہوتا ہے۔ میں نے نکاح کے وقت سب کے سامنے اسے اپنی زندگی میں لانا قبول کیا ہے اور جو اپنے قول پر دل سے  قائم نہ رہے وہ کیسا مرد ہے ؟
 محبت اور خلوس اگر زندگی بھر قائم نہ رہے تو شریک حیات کا کیا مطلب رہے گا ؟ ہم نے جب دل سے ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کو شریک حیات قبول کیا ہے، اب اس بات پر مکرنا کیسا؟”
میں اس بزرگ کی دانائی سے لبریز باتوں پر غور کرنے لگا تو مجھے محسوس ہوا کہ ہم واقعی میں اس نام کو سرسری طور پر استعمال کرنے کے عادی ہوئے ہیں۔ ہم اپنے وعدوں کو جلدی بھول جانے کی احمقانہ بھول کرکے اپنی زندگی کو خود اجیرن بنادیتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.