اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے گزشتہ دنوں اسرائیل کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ میں اموات، تباہی اور نسل کشی جیسے کسی بھی اقدام کو روکنے کے لیے ہر ممکن کاروائی کرے۔ تاہم عدالتی پینل نےاسرائیل کو جنگ بندی کا حکم دینے سے گریز کیا جو فلسطینیوں کے محصور علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بنی ہے۔اس مختصر حکم کے بعد امکان ہے کہ یہ مقدمہ آئندہ کئی برسوں تک عالمی عدالت میں زیر سماعت رہے گا ۔تاہم جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کردہ اس مقدمے میں فوری جنگ بندی کی درخواست قبول نہ کیے جانے سے اسرائیل کو کچھ فائدہ ہوا ہے۔لیکن عدالت نے اپنے فیصلے میں جو نصف درجن احکامات جاری کیے ہیں، جنگ روکے بغیر ان پر عمل درآمد مشکل دکھائی دیتا ہے۔عدالت کے صدر جان ای ڈونوگھو نے کہا ہے کہ عدالت خطے میں رونما ہونے والے انسانی المیے سے بخوبی واقف ہے اور اسے انسانی جانوں کے مسلسل ضیاع اور انسانی تکالیف پر گہری تشویش ہے۔
عدالت کی جانب سے اسرائیل کی مقدمہ خارج کرنے کی درخواست قبول نہ کیے جانے سے اسرائیل کو دھچکا لگا ہے۔اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نےکہا ہے کہ یہ حقیقت کہ عدالت نسل کشی کے الزامات پر بحث کے لیے تیار ہے، شرم کا ایک ایسا نشان ہے جسے نسلوں تک مٹایا نہیں جا سکے گا۔انہوں نے ایک بار پھر اپنے اس عزم کو دوہرایا کہ جنگ جاری رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اپنے ملک اور اپنے عوام کے دفاع کے لیے جو بھی ضروری ہے کرتا رہے گا۔نیتن یاہو کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ حماس کے خاتمے تک جنگ نہیں رکے گی۔ایک ایسے وقت میں جب کہ فلسطینی وزارت صحت تقربیاً26ہزار ہلاکتوں کی نشاندہی کر رہی ہے جن میں ان کے بقول70 فی بچے اور عورتیں ہیں، اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں حماس کے9ہزار عسکریت پسندوں کو مار دیا گیا ہے۔یونیورسٹی کالج لندن میں قانون کے ایک لیکچرر ہائم ابراہام کہتے ہیں کہ عدالت کا فیصلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسی چیزیں موجود ہیں جو نسل کشی کے حوالے سے اسرائیل کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔فلسطینیوں کی مزید ہلاکتوں اور نقصانات کو روکنے کے لیے عالمی عدالت کے ججوں کے پینل کی بھاری اکثریت نے چھ احکامات جاری کیے ہیں۔ پینل کے ایک اسرائیلی جج نے بھی دو احکامات کے حق میں اپنا دوٹ دیا ہے جن کا تعلق انسانی ہمدردی کی امداد تک رسائی اور اشتعال انگیز تقریروں کی روک تھام سے ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل ایک مہینے کے اندر احکامات پر عمل درآمد کی رپورٹ عدالت کو پیش کرے۔عالمی عدالت کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے اور اس کے خلاف اپیل نہیں کی جا سکتی۔ لیکن دوسری جانب عدالت کے پاس اپنا حکم منوانے کے لیے کوئی طاقت موجود نہیں ہے۔
اس لیے واضح نہیں ہے کہ اسرائیل ان پر عمل کرے گا یا نہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق عالمی عدالت انصاف کی جانب اسرائیلی فوجیوں کو غزہ میں نسل کشی نہ کرنے کے احکامات کے باوجود صیہونی فوج ایک بار پھر بمباری شروع کردی، 24 گھنٹوں میں مزید183 فلسطینی ہلاک ہوگئے۔ایسے میں اقوام عالم کے ادارے بے توقیری سے دوچار ہورہے ہیں ۔اقوام متحدہ نے کئی مرتبہ جنگ روکنے کے لئے کہا ،لیکن یہ مطالبہ سرد خانے کی نظر ہوگیا ۔اقوام عالم کے ادارے بغیر دانت شیر ثابت ہورہے ہیں ۔دنیا کو تیسری عالم گیر جنگ سے روکنے یا بچانے کے لئے دنیا کے بڑے اداروں کو فیصلہ ساز ہونا پڑے گا ۔اگر ایسا نہیں ہوتا ،تو دنیا میں کوئی بھی طاقتور کسی بھی کمزورکو ملیا میٹ کرسکتا ہے ۔عالمی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے آرمی چیف جنرل پیٹرک سینڈرز نے کہا ہے کہ برطانوی شہریوں کو روس سے ممکنہ جنگ کے لیے تربیت اور خود کو لیس کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ’روس ہمارے نظام اور زندگی گزارنے کے طریقے کو شکست دینا چاہتا ہے۔‘یہ ایک خطرناک انتباہ ہے ،جو دنیا کو تیسری عالم گیر جنگ طرف دھکیل سکتا ہے ۔برصغیر میں بھی صورتحال کشیدہ ہی ہے ۔چین ۔بھارت ۔پاکستان ۔افغانستان اور اب ایران ۔پاکستان کشیدگی نے نئے خدشات کو جنم دیا ہے ۔ضروری ہے کہ اقوام عالم کے ادارے بے توقیری سے محفوظ رہیں جبکہ ملک ِ بھارت اس حوالے سے کلیدی رول ادا کرسکتا ہے ۔





