افسانہ_____ہیزل

افسانہ_____ہیزل
ہلال بخاری
ہیزل ایک نو عمر لڑکی تھی۔ اس نے ابو درویش کے بارے میں ایک دن سنا کہ وہ ایک پہنچے ہوئے پیر ہیں ، بلکہ استادوں کے استاد ہیں۔ یہ بات جیسے اس کمسن لڑکی کے گلے سے نیچے نہ اتر سکی۔ اچانک اس کے دل میں کئی شبہات نے جنم لیا۔ اس نے سوچا اتنا بھی کیا ہوگا یہ پیر صاحب۔ ہیزل نے دل ہی دل میں ٹھان لی کہ میں اس ملنگ سے دکھنے والے بھولے بھالے آدمی کا امتحان لیتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ اسکا علم کتنا وصحیح ہے۔ مگر اسکو شاید معلوم نہ تھا کہ ابو درویش نے دنیا دیکھ رکھی تھی اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تھا۔ اسے لوگ یوں ہی ابو درویش نہیں کہتے تھے۔ وہ واقعی ایک نیک صفت بزرگ تھے۔
وہ اپنے تجربے سے لوگوں کے سیاہ و سفید سے خوب واقف ہوا تھا اور جانتا تھا کہ انکے نفسیات میں کون کون سی خوبیاں اور خامیاں پنپتی ہیں۔
پھر اس دن ہیزل فخر سے لبریز ادا کے ساتھ اسکے قریب پہونچی اور پوچھا،
” درویش جی، میرا نام ہیزل ہے۔ آپکا بہت نام سنا ہے۔ میں نے آج رات ایک آدمی کو خواب میں دیکھا جو خدائی کا دعویٰ کر رہا تھا۔ مہربانی کرکے اس خواب کی مجھے تعبیر بتا دیں۔”
ابو درویش نے ہیزل کی آنکھوں میں شوخی اور فخر کی ملی جلی چمک کو محسوس کیا۔ پھر اس نے اپنی پراسرار آنکھیں آہستہ سے اٹھا کر ہیزل کی طرف دیکھ کر ایک مہین سی مسکراہٹ کو اپنے ہونٹوں پر پھیلا کر پر سکون ہوکر جواب میں کہا،
"ہیزل,  آپکے خوابوں اور خیالوں میں جو بھی صورت بنتی ہے وہ یا تو آپ نے دیکھی ہے یا سوچی ہے۔ اس شے کے بارے میں آپ کیا اندازہ کرسکتی ہو جو آپ نے کبھی نہ دیکھی ہو نہ سوچی ہو ؟ اسکا خیال کرنا یا اسکا خوابوں کے اندر دیدار کرنا میرے نزدیک ناممکن ہے۔”
” مطلب!” ہیزل نے حیرت زدہ تصویر بنا کر پوچھا۔
” مطلب یہ کہ اگر ایک شخص خدائی کا دعوا کرتا تھا تو وہ جھوٹا تھا، یا تمہاری ادراک میں خامیاں ہیں یا تو یہ ایک بے معنی خواب ہے۔”
” میں سمجھی نہیں آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟” ہیزل نے منہ بنا کر کچھ غصے اور کچھ حیرت سے پوچھا۔
پھر اس کو سمجھانے کے لئے ابو درویش نے بڑے اتمنان سے یہ شعر پڑھا،
"مرا بر صورت خویش آفریدی
بروں از خویشتن آخر چہ دیدی
 یعنی بت گر خدا کو اپنے تخیل کی صورت میں سوچ کر تخلیق کرتا ہے جبکہ اصل میں تو خالق کی تخلیق مخلوق کے ذہن سے ممکن  ہی نہیں۔”
ہیزل اسے دیکھتی رہی لیکن اس کے بعد جو اس نے کہا اس نے اس جواں سالہ دوشیزہ کو جیسے بے چین کر دیا ،
” میں اس خواب کی کیا تعبیر بتاؤں جو تم نے اصل میں دیکھا ہی نہیں۔ اب جاؤ آج اصل میں دل لگا خواب دیکھو۔ پھر کل اس کی تعبیر بتا دوں گا۔ لیکن، ہیزل جی ، جب تم اصل میں خواب دیکھ لو گی تو یاد رکھنا نیند تم پر حرام ہوجائے گی۔”
   یہ سننا تھا کہ وہ کمسن لڑکی جیسے بے تاب سی ہوگئی۔ اس سے اب رہا نہ گیا۔ اس نے چاہا تھا کہ وہ اس درویش کا امتحان لے گی مگر اس کی پر اسرار آنکھوں سے نظریں ملا کر اور اس کی جادو بیانی سن کر ہیزل کو لگا کہ وہ خود ایک مشکل امتحان میں پڑھ گئی ہے۔
 اس سے اب اور رہا نہ گیا۔ وہ بے چین ہوکر جہاں سے آئی تھی وہاں روانہ ہوگئی ۔ اس کے ذہن و دل پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ کچھ دور جاکر وہ تیز تیز قدم اٹھا کر چلنے لگی، یہاں تک کہ وہ ہانپنے لگی۔ پھر وہ ایسے بھاگنے لگی جیسے کسی کی پراسرار نظریں اس کے تعاقب میں تھیں۔ وہ دوڑتی بھاگتی رہی یہاں تک کہ اپنے گھر پہنچی۔
 گھر میں بیٹھ کر وہ لگاتار کوشش کرنے لگی کہ اسے کچھ پل کے لئے چین ملے اور وہ اس واقعے کو بھول جائے جو اسکے ساتھ پیش آیا تھا۔ مگر اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار ابو درویش کی پراسرار آنکھیں آنے لگی اور آہستہ آہستہ اسے  یوں محسوس ہونے لگا کہ اس درویش کی آنکھیں  اسکی اپنی آنکھوں کی جگہ پوست ہوئی ہیں۔ وہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ساتھ اور ذیادہ بے چینی محسوس کرنی لگی۔ جتنا ذیادہ اس نے چاہا کہ وہ بھول جائے، اتنا ہی ذیادہ وہ ابو درویش کی کہی باتوں کو بار بار یاد کرنی لگی۔
رات کے آخری پہر تک وہ اسی طرح اپنے بستر پر کروٹیں بدلتی رہی اور اب اسے محسوس ہونے لگا کہ اسکی نیند اب اس پر حرام ہوئی ہے۔
لیکن پھر اچانک اسے کچھ قرار سا آنے لگا۔ شاید سکون کے اس پل نے اسکی آنکھیں بھاری کردیں۔ نیند کی مدہوش کردینے والی ٹھنڈک نے اسکی آنکھوں کو ابھی چھوا ہی تھا کہ اس نے ایک خواب دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ ابو درویش کی پراسرار آنکھوں کی نظر جیسے سارے آسمان پر پھیلی ہوئی ہیں اور کوئی اسکو پکار پکار کے کہہ رہا ہے،
” ہیزل ، ہیزل ، میری طرف دیکھ لے ہیزل۔ میں تیری بے قراری کی وجہ ہوں اور میں ہی تیرا قرار ہوں۔ دیکھ لے ہیزل۔”
اور جب اس نے دیکھا تو ابو درویش کی پراسرار آنکھوں کے سوا اسے کچھ اور نظر نہ آیا۔ اور اسے لگا کہ ان آنکھوں کا رنگ اچانک ذیادہ سے ذیادہ لال ہوتا جارہا ہے جیسے آگ ہو،  جہنم کی آگ۔ اس نظارے کے ساتھ ہی وہ ایک چیخ کے ساتھ جاگ کر اٹھ بیٹھی اؤر اسے محسوس ہونے لگا کہ اسکی بے چینی نے اب جیسے ابدی جام پیا ہو اور یہ  اب اس کے دل و دماغ سے جانے والی نہیں۔ پھر اسکو اس درویش کی وہ بات یاد آگئی،
” ہیزل جی ، جب تم اصل میں خواب دیکھ لو گی تو یاد رکھنا نیند تم پر حرام ہوجائے گی۔”
اور اسے اب محسوس ہونے لگا کہ واقعی  اس کا چین اور اسکی نیند اب اسکے دل و ذہن کے لئے حرام ہوچکے ہیں۔
 

Leave a Reply

Your email address will not be published.