منگل, دسمبر ۱۶, ۲۰۲۵
9.1 C
Srinagar

نظر گزر لازمی ۔۔۔۔۔

ملک کی آزادی کے 77سال بعد جموں اور کشمیر کے درمیان دوریاں ختم ہو رہی ہیں، اب صرف چند گھنٹوں میں ہی آر پار کے لوگ بنا کسی رکاوٹ کے 300کلو میڑ کا یہ فیصلہ آسانی کے ساتھ طے کرسکتے ہیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جموں اور کشمیرکے لوگوں کے درمیان اونچے پہاڑ میل ملاپ میں سب سے بڑی رکاوٹ تصور کئے جاتے تھے کیونکہ دشوار گزار پہاڑوں سے بنی سرینگر۔ جموں قومی سڑک عوام کوملانی والی واحد سڑک تھی ،جو اکثر و بیشتر بند رہتی تھی ۔اس طرح وادی کے لوگوں کو سردیوںکے ایام میں بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔اب ملک کے محکمہ ریلوے نے برسوں سے لگاتار محنت کر کے کشمیر اور جموں کو آپس میں ملایا ہے اور اس ریل کا ابتداءرواں ماہ کے دوران کسی بھی وقت متوقع ہے۔

شمالی ریلوے نے اس حوالے سے تمام تیاریاں کی ہیں اور بانہال سے کٹرا تک اس ریلوے ٹریک کا گذشتہ دنوں باضابطہ حفاظتی معائینہ کیا گیا تاکہ روزانہ بنیادوں پر اس ریل کی شروعات کی جاسکے۔پہلے ایام میں جب سرینگر سے جموں یا جموں سے سرینگر کوئی بھی شخص اپنا صفر مجبوری کی صورت میں کرنا چاہتا تھا ،تو وہ اپنے دوستوں ،رشتہ داروں اورا ہل خانہ سے یہ سوچ کر اجازت اور رخصت طلب کرتا تھا کیونکہ اُس کو یہ یقین نہیں ہوتا تھا وہ واپس آئے گا بھی یا نہیں۔ اس سڑک سے سفر کرنا انتہائی مشکل تھا اور آج تک اس قومی شاہرا ہ پر ہزاروں کی تعداد میں مسافر موت کی آغوش میں چلے گئے۔یہاں یہ بات کہنا بے حد ضروی ہے کہ جموں اور کشمیر کے لوگوں کا سفر اب اس ریل کی بدولت آسان بن جائے گا بلکہ دونوںا طراف کےعوام کے دل بھی جُڑ جائیں گے۔اس ریلوے ٹریک پر برصغیر کا سب سے اونچا اور لمباپل بنایاگیا ہے جو کسی عجوبہ سے کم نہیں۔جموں اور کشمیر کے درمیان چلنے والی ریل گاڑی سے نہ صرف عام لوگوں کو فائدہ ملے گا بلکہ اُن میوہ تاجروں کو بھی پریشانی سے نجات ملے گی جن کا مال راستہ بند ہونے کی وجہ سے خراب ہوتا تھانہ ہی وادی کے اُن ذخیرہ اندوزوں اور ٹرانسپوٹروں کو حد سے زیادہ منافع حاصل کرنے کا موقعہ ملے گا جو راستہ بند ہونے کے بہانے عام لوگوں کو دو دو ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے۔

سرینگر ۔جموں قومی سڑک بند ہونے کے ساتھ ہی ہوائی جہاز اُڑانے والی کمپنیاں بھی لوٹ مچاتی تھیں۔ اس طرح مجبور لوگ سب کچھ برداشت کرتے تھے۔جموں اور کشمیر کے درمیان چلنے والی ریل گاڑی اہل وادی کا ایک دیرینہ خواب تھا ،جو بہر حال پورا ہوا ہے جس کا سہرا موجودہ مرکزی سرکارکے سر جاتا ہے ،جنہوں نے اس اہم اور تواریخی پروجیکٹ پر کام کر رہی کمپنیوں کو دن رات کام کرنے پر مجبور کر دیا ۔اہل وادی ان باتوں سے بخوبی واقف ہیں کہ یہاں معمولی تعمیراتی کام پائیہ تکمیل تک لے جانے کے لئے عمر نوح درکار ہے۔اس ریل کے چلنے سے نہ صرف یہاں سیاحوں کا رش بڑھ جائے گا جو کہ وادی کی اقتصادیات کے لئے ریڑ ھ کی ہڈی مانا جاتا ہے بلکہ صنعت کاروں کو بھی خام مال لانے میں آسانی ہوگی۔تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ریل کے چلنے سے وہ لوگ بھی آسانی کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاسکتے ہیں جو مجرمانہ ذہنیت کے ہوتے ہیں ،جو مختلف جرائم انجام دیتے ہیں اُن پر نظر گزر رکھنے کی بے حد ضرورت ہے تاکہ جنت کی وادی پھر ایک بار جہنم نہ بن جائے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img