کشمیر ی زبان کو بھی عالمی سطح پر لانے کے لئے جہاں مائکرو سائفٹ نے بھی اس زبان کا ترجمہ اپنے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر دستیاب رکھا ہے، وہیں یہ بات بھی انتہائی مایوس کُن ہے کہ زمینی سطح پر اس زبان کو بولنے والے لوگ اس زبان کو اپنے گھروں سے ختم کرنے کے موڑ میں نظر آرہے ہیں۔کشمیر برصغیر کا ایک ایسا خطہ ہے جس کی اپنی پانچ ہزار سالہ تاریخ موجود ہے ۔یہاں کی تہذیب ،ثقافت ،تمدن اور زبان کو محفوظ رکھنے کے لئے اگر چہ مختلف ادبی تنظیمیں سرگرم نظر آرہی ہیں۔ تاہم وادی کے اکثر زیر تعلیم بچے اپنی زبان میں کچھ لکھ نہیں پاتے ہیں اور بہترڈھنگ سے اپنی زبان بول نہیں پاتے ہیں جو کہ انتہائی افسوس ناک تصور کیا جاتا ہے ۔کیونکہ ماہرین کا ماننا ہے کہ جس قوم کی زبان ،تہذیب اور اپنی تمدن ختم ہو جائی گی وہ قوم زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ پائے گی ۔
جہاں تک وادی کے طلبہ کا تعلق ہے وہ جب بھی کوئی کشمیر ی مضمون،شعر یا عبارت لکھتے ہیں تو وہ اس کو رومن انگریزی میں لکھ کر رکھتے ہیں کیونکہ انہیں کشمیری پڑھنا آتا نہیں ہے۔سرکاری سطح پر اگر کشمیر ی زبان کو اب اسکولی نصاب میں بھی شامل کیا گیا ہے لیکن اکثر طلبہ باقی زبانوں کی طرف ہی زیادہ دھیان دیتے ہیں۔اس کے لئے کن لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا؟ یہ ایک الگ سوال ہے لیکن جہاں تک کشمیری عوام کا تعلق ہے، وہ اپنے بچوں کو گود میں ہی انگریزی ،اُردو میں بات کرنا سکھاتے ہیں اور والدین بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ انہیں کشمیری نہیں آتی ہے ۔ان والدین کو اس طرح کی عادت کہاں پرپڑ گئی، یہ بھی ایک بہت بڑا سوال اُبھر کا سامنے آتا ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں کے دوران جب بھی وادی میں کوئی سمینار ،سمپوزیم اور کانفرنس ہوتی تھی ،اُن میں وادی کے اُساتذہ صاحبان اور سیاستدان انگریزی اور اُردو میں تقریر جھاڑتے تھے، وہ کشمیری میں بات کرنا معیوب سمجھتے تھے۔حد تو یہ تھی کہ ان کانفرنسوں کا انعقاد کرنے والے افراد صرف اُن ہی لوگوں کو تقریر کرنے کا موقع دیتے تھے ،جو کشمیر ی کی بجائے دیگر زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔عام لوگوں کے ذہنوںمیں یہ بات گھر کر گئی اور انہوں نے اپنے بچوں کو گھروں میں کشمیر ی سکھانے کی بجائے دیگر زبانیں سکھانے کی ترغیب دی کیونکہ وہ احساس کمتری کا شکار ہوگئے تھے۔بہرحال گزشتہ تین دہائیوں میں کون کون سی تبدیلیاں زمینی سطح پر آگئیں ،اُن پر بات کرنے سے دل رنجیدہ ہو رہا ہے ۔تاہم جن لوگوں نے ان حالات میں اپنی زبان کوزندہ رکھنے کی تحریک چلائی اور ہر محاذ پر کشمیر کی تہذیب و ثقافت اور زبان زندہ رکھنے کے لئے محنت کی وہ مبارک بادی کے مستحق ہیں، مگر اتنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ کشمیری عوام کو اس زبان کے تحفظ کے لئے خود پہل کرنا ہوگی ،گھروں میں اپنے بچوں کو کشمیر ی لکھنا، پڑھنا ،سکھانا ہوگا نہ کہ اس احساس کمتری کاشکار ہونا چاہیے کہ اگر اُن کا بچہ کشمیر ی میں بات کرے، تو وہ ناقابل قرار دیا جائے گا۔
جہاں تک پرائیویٹ اسکولوں کا تعلق ہے ،اُن میں بھی کشمیر ی زبان کو ترجیح دینی ہوگی۔اسکولوں میں تعینات اساتذہ صاحبان کو بچوں کے ساتھ کشمیری میں بات کرنے کو فوقیت دینی چا ہیے، تب جاکر زمینی سطح پر تبدیلی آسکتی ہے ،ورنہ گوگل میں ہماری زبان کو ٹرانسلیشن کے لئے منتخب کرنے سے کوئی خاص فائدہ قوم کو حاصل نہیں ہوگابلکہ اس عمل سے اُن ہی ادیبوں،قلمکاروں اور شاعروں کو فائدہ مل سکتا ہے ،جو کشمیر زبان کے دل دادہ ہیں ۔





