مذکورہ دوشیزہ نے پولیس سے اپیل کی کہ کمپنی کے ساتھ ساتھ یوٹیوبرز کے خلاف بھی سخت کارروائی عمل میں لاکر انہیں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جائے۔ایک تاجر بلال احمد نے بتایا کہ کشمیری یوٹیوبرز نے ہی اس کمپنی کا پرچار کیا جس وجہ سے سینکڑوں لوگ جھانسہ میں آکر اپنی محنت کی کمائی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کمپنی کے سبھی ملازمین غائب ہو چکے جبکہ کشمیر اور جموں صوبے میں جتنے بھی دفاتر انہوں نے قائم کر رکھے تھے وہ سب بند پڑے ہوئے ہیں۔دریں اثنا متاثرین نے نزدیکی پولیس اسٹیشن اور سابیئر تھانے میں کمپنی اور یوٹیوبرز کے خلاف شکایت درج کی ہے۔
متاثرین نے پولیس کے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ کمپنی کے ساتھ ساتھ مذکورہ یوٹیوبرز کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لا کر انہیں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔
علاوہ ازیں عوامی حلقوں نے سابیئر پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ غیر رجسٹر شدہ یوٹیوبرز اور نیوز پوٹلز کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے جو غیر معروف کمپنیوں کا پرچار کرکے لوگوں کو مصیبت میں ڈال رہے ہیں۔عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ چند معروف یوٹیوبرز نے وادی کشمیر میں اخلاقیت کا بھی جنازہ نکالا ہے اور ان کے خلاف اب کارروائی عمل میں لانا ناگزیر بن گیا ہے۔
بتادیں کہ جموں وکشمیر پولیس کے سربراہ آر آر سوئن نے گزشتہ دنوں ہی ایک پریس کانفرنس کے دوران واضح کیا کہ سوشل میڈیا سائٹوں پر جعلی ، من گھڑت اور حقیقت سے کوسوں دور ویڈیو ، مواد ، ٹیکسٹ اپ لوڈ کرنے والے کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں۔انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ویڈیو شیئر کرنے والوں کو بھی مبرا قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔





