مرکزی سرکار کی نئی قومی تعلیمی پالیسی۔ 2020کے تحت زرعی یونیور سٹی نے رفتہ رفتہ نوجوانوں کی فلاح وبہبود اور با وقار روزگار سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ’ارتقاءفا ﺅنڈیشن پروگرام ‘کو شروع کیا۔ اس پروگرام کے تحت یہاں زیر تعلیم بچوں کو مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف پیشہ ورانہ تربیت دی جارہی ہے جبکہ”انو ویشن سپورٹ اور ہولیسٹک ایگریکلچر ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت مستحق طلبہ کو اسکالرشپ بھی دی جاتی ہے ۔تاکہ وہ اپنے مستقبل کو محفوظ بنا سکیں ۔نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020کی نمایاں خصوصیات کے چند نکات یوں ہیں ۔ پری پرائمری اسکول سے بارہویں درجہ تک کے اسکول کی تمام سطحوں تک سب کے لئے رسائی کو یقینی بنانا۔ تین سال تا6 سال تک کی عمر کے سبھی، بچوں کے ابتدائی بچپن میں معیاری دیکھ بھال اور تعلیم کو یقینی بنانا۔ فنون اور سائنسز کے درمیان، نصابی اورغیر نصابی سرگرمیوں کے درمیان اور پیشہ ورانہ اور تعلیمی شعبوں کے درمیان کوئی ٹھوس علیحدگی نہیں۔ بنیاد پر مبنی خواندگی اور حساب دانی کے بارے میں قومی مشن کا قیام۔کثیر لسانیات اور بھارتی زبانوں کے فروغ پر زور، کم از کم پانچویں جماعت تک لیکن ترجیحاً آٹھویں جماعت تک اور اس کے بعد بھی ذریعہ تعلیم، مقامی زبان/ مادری زبان/ علاقائی زبان / خطے کی زبان ہوگی۔ تجزیہ سے متعلق اصلاحات۔ اسکولی تعلیم کے کسی بھی سال کے دوران دو مواقع تک بورڈ امتحانات، ایک خاص امتحان اور ایک بہتری کے لئے اگر ضروری ہو تو۔ ایک نئے قومی تجزیاتی مرکز پرکھ کا قیام (کارگردی، تجزیہ، جائزہ اور مجموعی ترقی کے لئے معلومات کا تجزیہ)۔ مساویانہ اور سبھی کی شمولیت والی تعلیم۔ اس میں سماجی اور اقتصادی لحاظ سے کمزور اور پسماندہ گروپوں (ایس ای ڈی جیز) پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔
صنفی شمولیت سے متعلق ایک علیحدہ فنڈ اور پسماندہ خطوں اور گروپوں کے لئے خصوصی تعلیمی خطے۔اساتذہ کی تقرری اور میرٹ کی بنیاد پر کارکردگی کے لئے ایک مستحکم اور شفاف عمل۔ اسکولی احاطوں اور کلسٹرس کے ذریعہ سبھی وسائل کی دستیابی کو یقینی بنانا۔ اسٹیٹ اسکول اسٹینڈرس اتھارٹی (ایس ایس ایس اے) کا قیام۔ اسکولوں اور اعلی تعلیمی نظام میں پیشہ ورانہ تعلیم متعارف کرانا،شامل ہیں۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جموں کشمیر میں بے روزگاری کا جن روز بہ روز بے قابو ہوتا جارہا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بے روز بیٹھے ہیں۔پُرانے ایام میں وادی اپنے بچوں کو تعلیم پڑھانے کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے ہُنر سکھائے جاتے تھے، تاکہ تعلیمی اداروںسے فارغ ہوتے ہی وہ اپنا روزگار بغیر کسی رکاوٹ کے حاصل کرسکیں، اس کے برعکس آج کے دور میں بچے اعلیٰ تعلیم تو حاصل کرتے ہیں ،لیکن وہ پھر بھی بے روزگار ہوتے ہیں، اس طرح سماج میں بے روزگاری کا ایک خلاء پیدا ہو رہا ہے۔
ان تمام معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے مرکزی سرکار نے تمام یونیور سیٹیوں اور کالجوں کو یہ ہدایت جاری کہ وہ مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کو مختلف پیشہ ورانہ تربیت بھی دیں، تاکہ وہ آسانی سے اپنا روزگار حاصل کر سکیں۔ان کی ہدایات کے تحت شیر کشمیر زرعی یونیور سٹی شالیمار نے بھی ’ارتقاءفاﺅنڈیشن پروگرام ‘کی داغ بیل ڈالی ۔یہاں زیر تعلیم بچوں کو اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے ہُنر سکھائے جاتے ہیں ۔گزشتہ روز زرعی یونیور سٹی میں ایک پروقار تقریب منعقد ہوئی ۔ کمشنر سیکرٹری شری سورب بھگت ،یونیور سٹی کے وائس چانسلر پروفیسر نذیر احمد گنائی،پروفیسر ایم اے اے صدیقی ،ڈائریکٹر ایجوکیشن اور پروفیسرٹی ایچ مسعودی نے افتتاحی تقریب کے دوران طلبہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ اپنا مستقبل تابناک بنانے کے لئے آگے آئیں۔اس اقدام سے نہ صرف بے روزگاری کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ ملک کی تعمیر و ترقی میں یہ طلبہاپنا بہترین رول ادا کرسکتے ہیں۔مرکزی حکومت اور جموں کشمیر انتظامیہ کو اس حوالے سے ایسے اداروں کیبھرپور مالی تعاون فراہم کرنا چا ہیے، تاکہ اس قسم کی حکومتی پالیسی کامیابی سے ہمکنار ہو جائے اور جس مقصد کے لئے مرکزی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی ترتیب دی ہے، اُس کا فائدہ نوجوان نسل کو مل سکے اورملک کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر میںبھی بے روزگاری پر قابو پایا جاسکے۔





