الوداع : اپنے پیارے طلبہ کے نام

الوداع : اپنے پیارے طلبہ کے نام

ہلال بخاری

اس سال کا تعلیمی سیشن اپنے اختتام کے قریب ہے۔ اگرچہ ہمارے امتحانات اگلے سال مارچ میں ہونے والے ہیں لیکن سرمائی تعطیلات کے بعد ہم اپنے اسکولوں میں براہ راست امتحانات کے ساتھ مشغول ہوجائیں گے اور پھر ان کے بعد ان طلبہ سے ہمارا رابطہ منقطع ہوگا جو ہمارے اسکولوں میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد دوسرے اسکولوں یا کالجوں میں داخلہ لیں گے۔
یعنی اب ہمارے بہت سارے پیارے طلبہ اور طالبات ہم سے جدا ہونے کو ہیں۔ اور اس وقت کا یہ تقاضا ہے کہ ہم انکی اس الوداعی رسم کے لئے کچھ الفاظ اور کچھ خیالات رقم کریں جو شاید انکی یاد کا ایک حصہ بن کر انکی رہبری، دلبری اور رہنمائی کریں۔
ہم جب ان تعلیم گاہوں میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ہمارا آغاز بھی علم کے لئے ہی ہوتا ہے اور ہمارا ساتھ بھی اسی مقصد کو حاصل کرنے کا ہوتا ہے کہ علم اور آگہی میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے اور عالم انسانیت ہر نئی بلندی کے بعد بلند ترین اونچایوں کی طرف رواں دواں رہے۔ ہماری الوداع بھی اس سے مختلف نہیں ہوسکتی۔ اس کا مدعا اور مقصد بھی علم، دانائی اور معرفت کا فروغ ہی ہے۔ ہمارا ساتھ ہو یا ہماری جدائی یہ سب ہمارے لئے اسی لئے اہم ہیں کہ یہ ہمکو بہتر اور افضل زندگی کی تعلیم اور تربیت فراہم کرتے ہیں۔

ایک استاد کی زندگی کا سب سے اہم فلسفہ اپنے طلبہ کے ذہنوں اور دلوں پر علم کے نقوش کو دلکش انداز میں ثبت کرنا ہوتا ہے۔ ہم دانش گاہوں میں ننھے اور معصوم دلوں سے متعارف ہوتے ہیں اور وقت کی مہیا کردہ اجازت سے ان میں حوصلہ افزائی کا ذوق ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دنیا کا دستور ہے کہ تمام ملنے والے ایک نہ ایک دن ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔ مگر ہر ایک کامیاب استاد اور طالب علم ساتھ گزارے ہوئے سب بہترین اور یادگار لمحوں کو اپنے دل کے گوشے میں چھپا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ دنیا کا دستور ہے آگے بڑھنا بے اور اسی طرح سے دنیا کا نظام چلتا رہتا ہے۔ دل میں ہزاروں اندیشے بھی ہوں لیکن کسی کے جدا ہونے سے دنیا کا نظام تھم نہیں جاتا اور تبدیلی زندگی کا ایک انمول اصول ہے گو کہ تبدیلی کے وقت اکثر انسانوں کے دل خدشات سے بھر جاتے ہیں۔ زندگی کے کچھ اہم دن ہم نے اور آپ نے ساتھ ساتھ گزارے۔ ہمارے اور آپکے ساتھ کا واحد مقصد علم کی ترقی اور بہتری سے وابستہ تھا۔ ہم ایک دوسرے سے الگ ہونے جارہے ہیں تو اس کا معنی یہ نہیں کہ یہ مقصد فوت ہونے والا ہے۔ ہمارے جانے سے صرف چہرے بدل جایں گے مقصد بدلنے والا نہیں ہے۔ ہمارے قوم کو علم کی سب زیادہ ضرورت ہے اور اس قوم کا مستقبل آپ طلبہ کی محنت اور لگن سے وابستہ ہے۔ جس قوم کے طلاب میں علم اور تربیت حاصل کرنے کے لئے مسمم جزبہ پیدا ہوا اور انکے زہن علم کی روح سے کشادہ اور بالغ بننے میں کامیاب ہوگئے اس قوم کی بہتری اور کامیابی یقینی ہے۔ علم حاصل کرنے والوں کے حق میں بہتر یہ ہوتا ہے وہ چہروں کے بجائے روحوں سے وابستہ رہیں۔ آپکے پاس آپکا ساتھ دینے کے لئے اگرچہ نئے چہرے حاضر ہوں گے مگر اس ساتھ کی روح مسلسل وہی رہی گی اور مقصد وہی رہے گا، یعنی علم کا فروغ اور مسلسل محنت اور کشمکش کے ذریعے دانائی کے ان خزانوں کی تلاش جن کی بدولت اللہ بزرگ و برتر نے ہماری زندگی کو اصلی معنی عطا کیا ہے۔
ایک استاد کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس کے شاگردوں میں محنت کا ایسا ولولہ پیدا ہو کہ انکی کامیابی خود آکر ان سے بغلگیر ہونے کی آرزو کرے۔ اگر مجھ کو ایک استاد ہونے کی بدولت اپنے طلبہ سے صرف ایک لفظ کرنے کا موقعہ فراہم ہو تو میرا وہ لفظ ہوگا ” محنت” کیونکہ محنت ہی انسان کی زندگی کی مختصر دلیل ہے اور اسکی کامیابی ایک واحد کنجی ہے۔
تو پیارے طلاب اس جدائی کی اہم گھڑی سے اہم تر اگر کوئی حقیقت ہے تو وہ یہ ہے کہ ہم اور آپ اس دنیا کے ان مکتبوں میں ملتے ہی اس لئے ہیں کہ ایک نہ ایک دن جدا ہوں مگر ہماری سب سے دلکش اور دلفریب یادوں میں سے وہ یادیں سب سے پیاری ہوتی ہیں جو ہمارے مخلص، محنتی اور ایماندار ہونے کی دلیل ہوتی ہیں۔

مصنف استاد ہائی سکول کرالہ ویٹھ کنزر

نوٹ:اس مضمون کا ادارہ ایشین میل کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.