بجلی لاپتہ ۔۔۔۔۔۔

بجلی لاپتہ ۔۔۔۔۔۔

یہ دور اکیسویں صدی کا ہے اور دنیا ہر شعبے میں بڑی تیزی کیساتھ ترقی کرتی جارہی ہے ۔آج کرکٹ کے میدان بھی برقی روشنی سے جگمگاتے ہیں اور دن کا کھیل بھی اب رات کے وقت ہی کھیلا جاتا ہے ۔وادی کشمیر میں بھی کئی ایسے اسٹیڈیم تعمیر کئے گئے ،جہاں رات کے وقت کھیلنے کے لئے لائٹس نصب کی گئیں ۔لیکن وادی گھپ اندھیروں میں ہے ،ایسے میں کوئی کھیل کھیلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔موسم گرما ہو یا پھر سرما کٹوتی شیڈول نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ۔وادی کشمیر میں سردی کے ایام شروع ہوتے ہی عوامی مشکلات میں اضافہ ہونے لگتا ہے اور سب سے اہم بنیادی ضروریات پانی اور بجلی کی قلت شدت کیساتھ محسوس کی جاتی ہے۔

قانون ِقدرت کا چکر ہے کہ وادی میں موسمی تبدیلیاں ہوتے ہی کبھی پھولوں کی مہلک کھل اُٹھتی ہے تو کبھی سرد ترین ہواﺅں کے چلنے سے لوگ زیادہ تر گھروں میں ہی بیٹھنا پسند کرتے ہیں کیونکہ ان سرد ہواﺅں کے چلنے سے بچے ،بزرگ اور جسمانی طور کمزور لوگ مختلف بیماریوں میںمبتلا ہو رہے ہیں۔ان حالات میںایسے افراد کو ماہرین ِ صحت یہ صلاح دیتے رہتے ہیں کہ گھروں میں رہ کران کے لئے گرمی کا انتظام رکھا جائے۔یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سردی کے ان ایام میں اکثر و بیشتر بجلی غائب رہ جاتی ہے اور پانی کی سپلائی میں بھی خلل پڑجاتا ہے جو کہ انسانی زندگی کے لئے انتہائی اہم ہے۔

گزشتہ ایک ہفتے سے جس طرح بجلی سپلائی متاثر رہی ، اُس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ آنے والے ایام کے دوران اس میں مزید کمی ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ ابھی نہ ہی برف وباراںہوئی ہے اور نہ چلہ کلان کے سرد ترین ایام شروع ہوئےپ،ھر بھی عوامی حلقوں میں بجلی کی عدم دستیابی پر ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔یہ بھی ایک عام بات ہے کہ چلہ کلان شروع ہوتے ہی اسپتالوں اور پرائیوٹ طبی مراکز میں مریضوںکی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے کیونکہ اکثر بزرگ اور بچے شدید سردیوں کے ان ایام میں بیمار رہتے ہیں اور اکثر مریضوں کو گھر وںمیں گرمی رکھنے اور آکسیجن مشینیںوغیرہ دستیاب رکھنے کی صلاح دی جاتی ہے ۔ تاکہ ایسے مریضوں کا اسپتالوں کی بجائے گھروں میں ہی خیال رکھا جائے۔موجودہ دور میں بنا بجلی کے نہ ہی گرمی ممکن ہے اور نہ ہی ایسے مریضو ں کو آکسیجن دیا جاسکتا ہے ،جو اس کے بغیر نہیں رہ سکتے۔

جہاں تک صنعت کاری کا تعلق ہے، وہ بھی بغیر بجلی کے آگے نہیں بڑھ پائے گی ۔جہاں تک سیاحوں کی آمد کا تعلق ہے، ان میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ،ملک اور بیرون ملک کے سیاح وادی میں برف دیکھنے کی خاطر بھی آتے ہیں لیکن اگر ہوٹلوں ،ہا ﺅس بوٹوں اور مختلف صحت افزا مقامات پر بجلی دستیاب نہیں ہوگی ،تواُن کے لئے بھی پریشانی لاحق ہوگی ا۔س طرح بجلی کی عدم دستیابی سیاحتی شعبے اور صنعت کاری پر بھی اثر اندازثابت ہوگی۔وادی کے شہر و دیہات میں آئے روز بجلی کی عدم دستیابی پر لوگ اپنی نارضگی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اُن کا کہنا بجا ہے کہ اگر وہ بجلی فیس کی ادائیگی ماہانہ بنیادوں پر کرتے ہیں جو کہ اچھا خاصہ ہے پھر انہیں بجلی دستیاب کیوں نہیں رہتی؟ جو کہ اُن کا جمہوری اور شہری حق ہے۔اکثر لوگوں کا یہ بھی الزام ہے کہ وادی کی نسبت جموں صوبے میں بجلی 24 گھنٹے دستیاب رہتی ہے جبکہ شدید سردی کے ایام میں اس کی زیادہ ضرورت وادی کے لوگوں کو ہے ،جہاں گرم پانی کے بغیر عام آدمی منہ ہاتھ بھی نہیں دھو سکتا ہے ،نہانے کی تو بات ہی نہیں۔بہرحال وادی کےعوام کو سردیوں کے ایام میں کتنی بجلی درکار رہتی ہے، اس پر انتظایہ سے وابستہ حکام کو گہرائی سے سوچنا چاہئے اور ہماری پیداوار کتنی ہے اور ہم کتنی بجلی وادی سے باہر سردیوں کے ایام میں سپلائی کرتے ہیں، اس پر بھی ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے اور ترجیحی بنیادوں پر وادی کے مجبور عوام کو بنا کسی خلل کے بجلی سپلائی فراہم کرنی چاہئے تاکہ کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو کہ یہاں کے عوام کے ساتھ جان بوجھ کر ایسا رویہ رکھا جارہا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.