فلسطین ۔اسرائیل جنگ میں عام شہریوں کی ہلاکت باعث تشویش ہے ،اس جنگ کی وجہ سے پوری دنیا میں تباہی پھیل سکتی ہے۔جب فلسطین کی عسکریتنظیم حماس نے اسرائیل پر سینکڑوں راکٹ اور میزائیل داغ کر اسرائیل اوراس کے حمایتوں کو ہلا کے رکھ دیا، اُس وقت پوری دنیا کےساتھ ساتھ بھارتی قیادت نے بھی ان حملوں کی مذمت کی اور اس حملے کو انسانیت پر حملہ قراردیا۔لیکن اسرائیل نے غزہ اور فلسطین کے دیگررہائشی علاقوں پر جس طرح فضائی اور زمینی حملے کر کے ہزاروں لوگوں کو مار ڈالا ،وہ واقعی قابل مذمت ہے۔
دنیا کے لگ بھگ 145ممالک نے ان حملوں کی مذمت کی اور اسرائیلی جاریت کو انسان سوز حرکت قرار دیا اور اسرائیل کو اس طرح کے حملے بند کرنے کی صلاح بھی دی۔اسرائیلی فوج نے نہ صرف اسکولوں،اسپتالوں اور عام رہا ئشی بستیوں کو نشانہ بنایا بلکہ انہوں نے اقوام متحدہ کے زیر انتظام چل رہے اداروں کو بھی نہیں بخشا ۔بھارت نے بھی اپنا نقطہ نظر صاف کیا اور اسرائیلی حکام کے ان اقدامات کی مذمت کی۔گزشتہ روز بھارت کے وزیر اعظم شری نریندرا مودی نے فلسطین کے وزیر اعظم محمود عباس کے ساتھ ایک ٹیلی فونک گفتگو کے ذریعہ سے فلسطین کے ساتھ نہ صرف ہمدردی کا اظہار کیا بلکہ فلسطین کے مصیبت زدہ عوام کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں وہی لیڈر ،سیاستدان اور حکمران کامیاب رہے ہیں، جنہوںنے بغیر کسی رنگ و نسل،مذہب و ملت کے صرف اور صرف انسانی بنیادوں پر ضرورت مند انسانوں کی مدد کی۔جہاں تک بھارت کا تعلق ہے اس ملک میں کروڑوں کی آبادی مختلف مذاہب،تہذیب و تمدن ،زبان اورثقافت سے وابستہ لوگ آپس میں مل جُل کر رہتے ہیں ،جو ایک دوسرے کے مذہب کانہ صرف عزت و احترام کرتے ہیں بلکہ ملکی معاملات میں سب ہر وقت ایک ہو کر متحد رہتے ہیں ۔عید ہو یا دیوالی،کرسمس ہو یا نوروز سب لوگ ایک دوسرے کے گھر جاکر مبارک باد دیتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ملکی اور غیرملکی سازشی عناصر کی کوششوںکے باوجود بھی یہ ملک روز بروز ترقی کی نئی نئی منزلیں طے کررہا ہے اور ہر شعبے میں کامیابی کے جھنڈے لہرارہا ہے۔
دنیا کا پہلا ملک جو چاند کے اُس حصے پر جا پہنچا ہے، جہاں پر ابھی تک خود کو طاقتور ٹیکنالوجی کے مالک کہنے والے ملک بھی نہیں پہنچ پائے ہیں۔غرض بھارت ایک ایساخود دار فیصلہ ساز ملک ہے جو کسی بھی طاقتور ملک کے آگے مضبوط چٹان کی طرح ہمیشہ کھڑا رہتا ہے اور انسانیت کی ترقی ،خوشحالی اور تعمیر وبقاءکے لئے اپنے آپ کو ہمیشہ پیش پیش رکھتا ہے۔یہ ملک کی سیاسی اورپا لیسی ساز قیادت اور شخصیات کی دین ہے کہ آج یہ ملک نہ صرف یورپ بلکہ عرب دنیا میں بھی ایک مقام رکھتا ہے ۔
جی ٹوونٹی ممالک کاسربراہی عہدہ ہو یا پر سارک کے ساتھ وابستہ ممالک کی بات ہو ،بھارت کا مقام سرفہرست ہوتا ہے، اس ملک کی رائے مقدم مانی جاتی ہے۔دور رس پالیسیوں کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آج دنیا کے بیشتر ممالک کے ساتھ بھارت ہر شعبے میں اشتراک کر رہا ہے ۔اس طرح اپنی معیشت بہتر بنانے کے لئے محنت اور لگن سے کام کرتا ہے۔جہاں تک عالمی صورتحال کا تعلق ہے، بھارتی قیادت ایک مثبت سوچ لیکر آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کا واضح ثبوت وزیر اعظم کے وہ فیصلے ہیں جو انہوں نے یوکرین۔ روس جنگ کے وقت لیا اور اب اسرائیل ۔فلسطین جنگ کے دوران لے رہے ہیں ۔یہ فیصلے ملک کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت فراہم کررہا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس طرح اندرونی اور بیرونی پا لیسیاںں برقرار رکھی جائیں۔