پوری دنیا میں انسانی حقوق سے متعلق تنظیمیں اور رضاکار کام کررہے ہیں تاکہ انسانوں کے حقوق کی پاسداری ممکن ہو سکے۔جہاں تک جمہوری ممالک کا تعلق ہے، وہ اپنے اپنے ملک میں ان تنظیموں اور رضاکاروں کو کھل کر کام کرنے کی نہ صرف اجازت دیتے ہیں بلکہ سرکاری سطح پر بھی اس ضمن میں کام ہورہا ہے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوسکے اور ہر انسان کو اپنے اپنے طریقے سے کھل کر جینے کا موقع ملے۔اس حوالے سے عالمی سطح پر بھی اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک فورم کام کررہا ہے، جو تمام ممالک میں موجود انسانوں کے حقوق پر نظر گزر رکھتا ہے اور اگر کسی بھی ملک میں کسی قسم کی خلاف ورزی کے واقعات سامنے آتے ہیں، تو اُس ملک کے حکمرانوں کے خلاف نہ صرف نوٹس اجراءکیا جاتا ہے بلکہ ان حکمرانوں کے خلاف ضابطے کے تحت کارروائی بھی کی جاتی ہے ۔
جہاں تک فلسطین ۔اسرئیل جاری جنگ کا تعلق ہے جس کا آغاز فلسطین کی جنگجو تنظیم حماس نے کیاتھا جس کے بعد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ شروع ہوئی ۔اب تک جاری اس جنگ میں لگ بھگ 8ہزار فلسطینی مارے گئے،جو اسرائیلی بمباری کی زد میں آگئے ہیں ۔اسرائیل یہاں اسپتالوں پر بھی میزائل داغ رہا ہے، جو انسانی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزی تصور کی جاتی ہے۔جہاں تک حماس جنگجو تنظیم کا تعلق ہے وہ بھی اپنے حملوں میں بلا کسی لحاظ رنگ و نسل ،مذہب و ملت کے لوگوں کو نشانہ بنارہے ہیں ۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ہے کہ پوری دنیا میں مختلف تنازعے موجود ہیں اور ان تنازعات کی وجہ سے انسان جانوروں کی طرح مر جاتے ہیں اور طرفین کی جانب سے جنگی جرائم ہوتے ہیں، مگر پھر بھی اسرائیل۔ فلسطین کو چھوڑ کر دنیا کے دیگر ممالک ایک دوسرے سے بات کر کے امن کو فروغ دینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔بھارت اورپاکستان وجود میں آتے ہی ان دو ممالک کے درمیان بھی جنگیں ہوئیں پھر بھی ہمیشہ بھارتی قیادت نے مذاکراتی عمل کو فروغ دینے کی کوشش کی، اس طرح ان دو ممالک کے درمیان امن معاہدے ہوئے جن پر آج بھی دونوں ممالک اپنی اپنی جگہ کاربند رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔شملہ،تاشقند،لاہوراور آگرہ معاہدے آج بھی گواہی دیتے ہیں کہ برصغیر کے یہ دو ممالک کس قدر اپنے لوگوں سے محبت و عقیدت رکھتے ہیں ،اُن کی بہتری و بھلائی کے لئے کس قدر فکر مند ہیں، اس کے برعکس دیگر ممالک اپنے لوگوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انہیں جان بوجھ کر موت کے کنویں میں دھکیل دیتے ہیں۔
اگر چہ پاکستان کبھی کبھار درپردہ دراندازوں کو کشمیر اور پنجاب میں گھسنے کے لئے مدد بھی کرتا ہے لیکن پھر بھی بھارت جیسا طاقتور ملک ہمیشہ صبر و تحمل اور دور اندیشی سے کام لیکر مذاکراتی عمل کو آگے بڑھتا ہے تاکہ ان کے عوام مصائب و مشکلات کے بھنور میں نہ پھنس جائیں۔جہاں تک فلسطین اور اسرائیل کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کا تعلق ہے، وہ اپنے عوام اور دوسروں کا ہرگز خیال نہیں کرتے ہیں جو کہ ایک افسوسناک پہلوتصور کیا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور انسانی حقوق کی اُن تنظیموں کو اس وقت سامنے آنا چاہئے، تاکہ یہ جنگ روکی جاسکے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو عنقریب یہ جنگ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ،جو تباہی و بُربادی کا باعث بن سکتی ہے۔امریکہ ،بھارت ،روس ،برطانیہ اور چین جیسے طاقتور ممالک اس جنگ کو ختم کرنے میں اہم کردار نبھا سکتے ہیں اور جنگ بندی ہونے تک طرفین کی جانب سے ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دباﺅ ڈال سکتے ہیں اور اس حوالے سے ہرگز دیر نہیں کرنی چاہیے۔