وادی کشمیر کے شہری علاقوں میں اگر چہ شادیوں کا سیزن ختم ہونے کو جارہا ہے، تاہم وادی کے دیہی علاقوں میں شادیوں کا موسم بڑے زوروں پر جاری ہے ۔پہلے ایام کے دوران اگررشتہ ڈھونڈتے وقت صرف چند باتوںکا خیال رکھا جاتا تھا،ایک یہ کہ جس گر میں لڑکی بہو بن کر جائے گی، اُس گھر کی ذات بنیاد کیا ہے اور کیا وہ دال روٹی کھانے والے لوگ ہیں کہ نہیں ،ا س گھر کی شرافت ہے کہ نہیں ۔اسی طرح لڑکے والے بھی یہی کچھ دیکھتے تھے کہ جو لڑکی ہمارے گھر آئے گی وہ واقعی ہمارے گھر کے لئے رحمت بن کے آئے گی یا پھر مصیبت بن جائے گی جیسا کہ زیادہ تر آج کے ایام میں دیکھنے کو ملا رہا ہے کہ شادی کے سات دن ختم ہوتے ہیں ،گھروں کا بٹوارہ شروع ہو جاتا ہے۔
چہ جائے والدین کے پاس ایک ہی لڑکا کیوں نہ ہو؟۔ آج کے دور میں نہذات پات اور خاندان کی ذات بنیاد دیکھی جاتی ہے بلکہ صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ لڑے والوں اور لڑی والوں کے ہاں کتنی دولت ہے، کتنے بنگلے اور کتنی گاڑیاں ہیں۔ہم یہاں جس موضوع پر بات کرناچاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ شہری علاقوں کے ساتھ ساتھ اب دیہات میں بھی شادی بیاہ کے دوران فضول خرچات ہو رہے ہیں، اب دیہات میںبھی شادیوں کے دوران بڑے پیمانے پر وازہ وان پکایا جاتا ہے، بڑے پیمانے پر گوشت تیار کرکے درجنوں اقسام کے پکوان بنائے جاتے ہیں اور ان کی بہترین ذائقے کے لئے آشپاز حضرات مختلف قسم کے رنگ اور ٹیسٹنگ پاﺅڈر کا استعمال کرتے ہیں، جو صحت کے لئے کافی زیادہ مضر ہے۔
وازہ وان کے دوران طرح طرح کے جوس،مشروبات اور مٹھایاں ہوتی ہیں ،کہی روز قبل گھروں کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے، یہ دوسری بات ہے کہ اکثر لوگ اس کے لئے یا تو زمین جائیداد فروخت کر دیتے ہیں ،یا پھر مالی اداروں کے گروی رکھ کر قرضے حاصل کئے جاتے ہیں۔پہلے ایام میں لڑکے والوں کو لڑکی کے گھر دعوت پر جانے کے لئے سارا انتظام خود کرنا پڑتا تھا۔گوشت اور چاول کے علاوہ وازہ وان پکانے والوں تک کا سارا خرچہ لڑکے والوں کو برداشت کرنا پڑتاہے، اس طرح غریب ہو ، یامیر لڑکی والوں پر کسی قسم کا بوجھ نہیں پڑتا تھا۔پوری شادی نہایت ہی سادگی کے ساتھ شرافت اور شریعت کے اصولوں کے عین مطابق انجام دی جاتی تھی۔آج وادی کے شہر و دیہات میں یہ سب کچھ دیکھائی نہیں دیتا ہے۔
غالباًیہی وجہ ہے کہ آج وادی میں شادی کی عمر پار کئے ہوئے لڑکیوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے، جو اُن لوگوں کے چہرے پر بد نما داغ ہے، جو اسلام اور اسلامی تعلیمات کے نام پر اپنی روزی روٹی کماتے ہیں اور صرف اپنی اپنی ڈیڈھ اینٹ کی مسجدتعمیر کر کے زور زور سے ان مساجد میں تقریریں جھاڑ دیتے ہیں۔اگر وادی کے لوگ اس حوالے سے خرگوش کی نیند سے بیدار نہیں ہوں گے تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے بالغ بچے یورپی طرز پر کھلے عام بدکاری اور بے حیائی کی دلدل میں پھنس جائیںگے اور ساری قوم گناہ گار اور مجرم بن جائے گی ۔لہٰذاضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے علماء،دانشور اور ذی حس انسان اس حوالے سے ایک منظم تحریک کا آغاز کریں اور فضول خرچی اور جہیز جیسی بدعات کا خاتمہ ممکن بنانے میں اپنا کلیدی رول ادا کریں ۔