شوکت ساحل
سرینگر: وسطی کشمیر کے ضلع گاندر بل کے کرہامہ گاﺅں سے تعلق رکھنے والے غلام رسول ،ایک صوفی شاعر ہیں ،جنہوں نے روحانی تعلیم وتربیت کی تڑپ اور اضطراب میں خانہ بدوش صوفی بزرگ سے لیکر وادی کے بلند پایہ صوفی بزرگ لالہ صاحب ِ آرگامی کی صحبت میں رہنے اور بیت کرنے تک کا سفر طے کیا ۔ایشین میل ملٹی میڈیا کے ہفتہ وار پروگرام ’ بزم ِ عرفان ‘میں معروف براڈ کاسٹر عبدالاحد فرہاد سے گفتگو کرتے ہوئے صوفی شاعر غلام رسول کرہامی نے کہا کہ اُنہوں نے ساتویں جماعت تک مروجہ تعلیم حاصل کی اور گھریلو ذمہ داریوں کے بوجھ کی وجہ سے آگے تعلیم حاصل نہیں کرسکے ۔
غلام رسول کرہامی ایک متوسطہ زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔وہ پیشے کے لحاظ سے زمیندار اور شالباف ہیں ۔ اپنے صوفیانہ شاعری کے سفر کے بارے میں غلام رسول نے بتایا کہ شاعری سے رغبت بچپن سے تھی اور وہ صوفیانہ کلام سے کافی متاثر تھے ۔انہوں نے کہا کہ سنہ 1994سے انہوں نے باضابطہ طور پر اپنے اشعار کو محفوظ کرنا شروع کردیا اور اسکی بنیاد کافی پہلے پڑی تھی ۔
غلام رسول کرہامی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ روحانی تعلیم وتربیت کی چاہت میں وہ متعدد صوفی راہنماﺅں سے ملاقائی ہوئے ،لیکن اُنہیں صحیح استاد نہیں مل سکا ،کیوں کہ جن شخصیات کے پاس وہ گئے تھے ،انہوں نے یہ کہہ کر انکار کیا ،کہ وہ صحیح راہنمائی اس شعبے میں نہیں کرسکتے ہیں ۔ان کا کہناتھا کہ تڑپ اور اضطرابی کیفیت میں اُنکی ملاقات ایک خانہ بدوش صوفی بزرگ سید سراج الدین جن کا تعلق جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ(اسلام آباد) سے تھا ۔ان کا کہناتھا کہ سید سراج الدین اس لحاظ سے خانہ بدوش تھے ،کیوں کہ اُن کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ۔تاہم اسکے باوجود وہ اس صوفی بزرگ کی صحبت میں مسلسل ایک برس تک رہے ۔
غلام رسول کرہامی نے بعد ازاں وادی کشمیر کے بلند پایہ صوفی بزرگ لالہ صاحب آرگامی سے بیت کی اور اُن ہی سے خطہ ارشاد بھی حاصل کیا ۔یاد رہے کہ صوفی بزرگ لالہ صاحب آرگامی کا تعلق ضلع بانڈی پورہ کے چھٹے بانڈے گاﺅں سے تھا ۔ان کا کہناتھا کہ صوفی بزرگ لالہ صاحب آرگامی کی صحبت میں اُن کی زندگی میں کافی بدلاﺅ آیا اور یہ نہ صرف انہوں نے صبر کا دامن تھامنے کا سلیقہ سکھا بلکہ ’انا پرستی ‘ کو کبھی کبھی اپنے اوپر غالب نہیں ہونے دیا ،یہ اُنکی زندگی میں سب سے بڑا بدلاﺅ تھا ،جو’تاایں دم ‘برقرار ہے ۔
غلام رسول کرہامی کہتے ہیں کہ پہلے وہ ’غمگین ‘ تخلص لکھا کرتے تھے ،تاہم رہبر نے خواب میں ندا دی کہ ’آپ کرہامی لکھیں ‘ جب سے لیکر آج تک ان کے اشعار میں کرہامی ہی تخلص قلمبند ہوتا ہے ۔غلام رسول کرہامی کا پہلا شاعری مجموعہ کلچرل اکیڈمی کے تعاون سے سنہ 2011 میں منظر عام پر آچکا ہے ۔