منگل, دسمبر ۱۶, ۲۰۲۵
8.1 C
Srinagar

کشمیر: توسہ میدان کا سیزنل اسکول، 40 بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں

سری نگر:وسطی ضلع بڈگام کے مشہور اور انتہائی دلکش و دلفریب مقام سیاحتی مقام توسہ میدان میں نقل مکانی کرنے والےخانہ بدوش طبقے سے وابستہ بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے لئے ایک سیزنل اسکول قائم ہے جہاں دیگر جگہوں کی طرح بچوں کی صبح کی دعا سے اس چراگاہ کی رعنائی دو بالا ہوجاتی ہے۔
اس اسکول میں کم سے کم سے چالیس بچے زیر تعلیم ہیں جن کو پڑھانے کے لئے دو اساتذہ تعینات ہیں۔
سمگر شکشا اسکیم کے تحت چلنے والے یہ اسکول موسم گرما کے (عام طور پر ماہ اپریل یا مئی سے ماہ ستمبر یا اکتوبر تک) چھ مہینوں نے دوران چلتے ہیں جبکہ بعد میں موسم سرما شروع ہونے کے ساتھ ہی بند ہوجاتے ہیں۔
ان سیزنل اسکولوں میں 6 سے 14 سال کی عمر کے بچوں کو (ہجرت کی مدت کے دوران جو زیادہ سے زیادہ 6 ماہ ہے) تعلیمی سہولیت فراہم کی جاتی ہے۔
توسہ میدان کے سیزنل اسکول میں تعینات اساتذہ کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے لوگوں کے بچوں کو ان پڑھ رہنے سے بچانے کا یہ حکومت کا ایک بہت ہی اہم اقدام ہے۔
رفیق احمد نامی ایک استاد نے کہا کہ یہ حکومت کی ایک بہترین اسکیم ہے جس کے تحت دور افتادہ علاقوں اور مالی اعتبار سے پسماندہ بچوں کو بھی پڑھا لکھا بنایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم کئی برسوں سے یہاں توسہ میدان میں اس سیزنل اسکول میں بچوں کو پڑھاتے ہیں اور ہمارے اس اسکول کے کئی بچوں نے میٹرک تو کئی نے بارہویں جماعت کا امتحان پاس کیا اور وہ آگے بھی پڑھ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ‘تاہم جب اسکول موسم سرما شروع ہونے کے ساتھ ہی ماہ بند رہتے ہیں تو ہمارا بچوں کے ساتھ بھی رابطہ چھ ماہ تک منقطع ہوجاتا ہے جس سے ان کی تعلیم متاثر ہوجاتی ہے’۔
اساتذہ کا کہنا ہے کہ 6 ماہ کام کرنے کے بعد ہم 6 ماہ تک گھروں میں بیٹھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سے ہمارا روز گار بھی متاثر ہوجاتا ہے اور گوناں گوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے حکومت سے ان کے مستقبل کو محفوظ کرنے کی اپیل کی۔
اس سیزنل اسکول کی ایک طالبہ نے بتایا کہ ہم یہاں اچھی طرح سے پڑھتے ہیں۔
انہوں نے کہا: ‘یہاں استاد ہیں جو ہمیں ہڑھاتے ہیں لیکن کھلینے کے لئے ہمارے پاس سامان نہیں ہے’۔
ان کا مطالبہ تھا: ‘ہمیں وردی، کتابیں اور کھیلنے کا سامان یہاں دستیاب ہونا چاہئے’۔
بچوں کا کہنا ہے: ‘ہم ایک اچھے ٹینٹ میں بیٹھ کر پڑھتے ہیں لیکن اس کا فرش اچھا نہیں ہوتا ہے’۔
دریں اثنا ڈپٹی ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن بلال احمد نے یو این آئی کو بتایا کہ یہ سمگرا شکشا اسکیم ہے جو محکمہ سکول ایجوکیشن کی ہی ایک ونگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس اسکیم کے تحت خانہ بدوش لوگوں کے بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے اور ان بچوں کو مفت کتابیں اور رودی فراہم کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مقامی سطح پر ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کی 6 ماہ کے لئے ان بچوں کو پڑھانے کی تقرری عمل میں لائی جاتی ہے۔
موصوف نے کہا کہ یہ سکیم کئی برسوں سے چل رہی ہے گرچہ پہلے فنڈس کم تھے لیکن اب اس میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک استاد کا دس ہزار روپیے ماہانہ شہریہ دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے تمام تر سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ڈھوکوں سے واپسی کے بعد نقل مکانی کرنے والے خانہ بدوش آبادی کے بچت اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں جہاں ان کا اپنے کیچمنٹ علاقوں کے اسکولوں میں داخلہ ہوتا ہے اور وہ اس اسکیم کے تحت دستیاب تمام فوائد سے مستفید ہوتے ہیں۔
متعلقہ چیف ایجوکیشن افسران اپنے اپنے علاقوں میں سیزنل اسکولوں کی تعداد اور ان میں اساتذہ کی تعداد کا تعین کرتے ہیں۔

یو این آئی

Popular Categories

spot_imgspot_img