پوری دنیا میں کل یوم اُساتذہ کے طور منایا گیا۔اس دن کی مناسبت سے اسکولوں ،کالجوں ،یونیورسیٹیوں کے علاوہ مختلف سرکاری اداروں میں تقریبات کا اہتمام ہوا،جہاں مقررین نے اُستاد کے رتبے و مقام کو اُجاگر کیا۔اس بات میں کوئی شک کی گنجایش موجود نہیں ہے کہ کسی بھی معاشرے ،سماج اور قوم میں اُستاد کا مقام اعلیٰ ہوتا ہے کیونکہ اسی اُستاد کی بدولت ایک بچہ انسان بن جاتا ہے اور انسانیت کے آداب و گُر سیکھ جاتا ہے۔
کسی بلند پایہ شخصیت کی منزل اور مرتبے کے پیچھے ایک بہترین اُستاد کا ہاتھ ہو تا ہے۔اُستاد کے معنیٰ صرف وہ اُستاد نہیں ہے، جو بچے کو اسکول میں اچھی خاصی فیس یا اُجرت کے عوض تعلیم کے نور سے منور کرےبلکہ ہر اُس انسان کو استاد کہا جاتا ہے جو کسی دوسرے انسان کو بہتر ڈھنگ سے کسی بھی معاملے میں رہبری و رہنمائی کرے۔اگر باریک بینی سے دیکھا جائے ایک بچے کے لئے اُس کے والدین سب سے پہلے اُستاد بن جاتے ہیں جو اُس کا ہاتھ پکڑ کر چلنا پھرنا سکھاتے ہیں اور کھانے پینے کے طور طریقے سکھاتے ہیں،جو بچے کو زبان دیتے ہیں،پال پوس کر اسکول کے کلاس روم تک لے جاتے ہیں۔جہاں تک اسکول ،کالج یا یونیورسیٹیوں کا تعلق ہے وہاں موجود اُساتذہ صاحبان بھی اپنے شاگردوں کو تعلیم وتربیت دیتے ہیں لیکن آج کل کے مادی دور میں سب کچھ دولت کمانے کے لئے کیا جاتا ہے ۔
پُرانے ایام کی طرح موجودہ زمانے کا استاد اپنے شاگرد کو اپنے بچے کی نظر سے نہیں دیکھتا ہے بلکہ پیشے کی بنیاد پر سب کچھ آگے بڑھاتا ہے۔
روز اس طرح کی شکایتیں مل رہی ہیں کہ سرکاری اسکولوں میں اُساتذہ کرام بچوں کی لکھائی پڑھائی اور اخلاقی تعلیم کی جانب کم ہی توجہ دیتے ہیں۔اس کے برعکس پرایﺅیٹ اسکولوں میں کسی حد تک بچے بہتر بن کر باہر نکلتے ہیں کیونکہ یہاں والدین کو بہت زیادہ فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔اُستاد اور شاگرد کے تعلقات اثر رسوخ اور سرمایہ داری کی بنیاد پر آگے بڑھ جاتے ہیں ۔یہ کوئی بنی بنائی کہانی یا افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کیونکہ یوم اُساتذہ کے موقعے پر یہ بات سامنے آگئی ہے کہ اسکولوں میں اساتذہ صاحبان نے اُ سی بچے کی شاباشی اور حوصلہ افزائی کی جس کا تحفہ اچھا اور قیمتی تھا ۔ہر بچہ امیر ہو یا غریب گھرانے کا بہتر سے بہتر تحفہ اپنے اُستادکو دینے کے لئے دکانوں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہوجا تا ہے۔
پہلے ایام میں ایسا نہیں ہو تا تھا بلکہ قابل اور ذہین بچوں کی حوصلہ افزائی کلاسوں میں کی جاتی تھی نہ کہ قیمتی تحفوں کی بنیاد پر۔غریب والدین بھی اپنے بچوں کو استاد کیخاطر قیمتی تحفہ خریدنے کے لئے مجبور ہورہے ہیں،وہ اپنے بچے کو اُستاد کی نظر میں کمتر نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔شاید اسی لئے وہ بچے کے سامنے مجبور ہو رہے ہیں۔یوم اُساتذہ منانا اچھی بات ہے ہم اس کی مخالفت ہرگز نہیں کریں گے لیکن یہ کہنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ہمارے اُساتذہ اور اسکول انتظامیہ کو یوم اُستاد کے موقعے پر بچوں سے تحفے لانے پر پابندی عائد کرنی چاہئے اور اس کے بدلے اس اہم موقعے پر بچوں کے درمیان مختلف تعلیمی اور علمی مقابلوں کا اہتمام کرنا چاہئے اور اس طرح قابل اور ذہین بچوں کو انعامات سے نوازنا چاہئے ۔اس سے استاد اور شاگر کے درمیان رشتہ بھی مضبوط ہوگا اور غریب بچے احساس کمتری کا شکار بھی نہیں ہونگے جو والدین کو قیمتی تحائف خریدنے کےلئے مجبور کرتے ہیں۔