یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وادی کشمیر میں گزشتہ چند برسوں سے امن و سکون کا ماحول قائم ہے اور اس حوالے سے عوامی حلقوںکے ساتھ ساتھ انتظامیہ سے وابستہ افسران اور مرکزی سرکار خوش و خرم نظر آرہی ہے کیونکہ انسانی زندگی کا یہ دستور ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان ہنسی خوشی زندگی گزارنے کی آرزاو رتمنا رکھتا ہے۔مگر یہ بھی ایک کھلی کتاب ہے کہ وادی کے شہر و دیہات میں اکثر والدین بچوں کے حوالے سے دن رات فکر و تشویش میں مبتلا رہتے ہیں۔روز یہ خبریں سامنے آرہی ہیں کہ ٹریفک حادثے میں نوجوان کی موت ہوگئی ہے یا نوجوانوں کی غرق آبی سے متعلق خبریں سُننے یا پڑھنے کو ملتی ہیں۔روز کسی نہ کسی علاقے میں مرد و زن ماتم کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
بڑھتے ان حادثات کے پیچھے کون سے محرکات کار فرماہیں یا ان حادثوں کے لئے کون لوگ ذمہ دار ہیں، شاید ہی ہم بہ حیثیت قوم اس جانب اپنی توجہ مرکوزکرتے ہیں۔اکثر بچے چھوٹی عمر میںوالدین کو بائیک خریدنے کا تقاضہ کرتے ہیں اور والدین بھی وعدہ کرتے ہیں کہ اگر آپ آٹھویں یا دسویں جماعت کا امتحان اچھے نمبرات حاصل کر کے پاس کریں گے تو ہم آپ کے لئے ضرور قرضہ لیکر بائیک خریدلیںگے۔جہاں تک ان بچوںکا تعلق ہوتا ہے اُن میں وہ کچا پن یا بچہ گانہ پن ابھی موجود ہوتا ہے،وہ تیز رفتاری کے ساتھ بغیر ہیلمٹ کے اس طرح بائیک ،موٹر سائیکل اور سکوٹی کو چلاتے ہیں گویا سڑک پر گاڑی نہیں بلکہ جہاز چلتا ہے اور تو اور یہ بچے فلمی انداز میں کرتب بازی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں حادثات رونما ہوتے ہیں اور اس طرح نہ صرف ان بچوں کے والدین کی خوشحال زندگی غم میں تبدیل ہو جاتی ہے بلکہ ان کے بہن بھائی اور دیگر رشتہ دار بھی عمر بھر کے لئے غمزدہ ہو جاتے ہیں۔یہ بات بھی اخذ ہو رہی ہے کہ وادی کے اکثر بچے غلط صحبت میں پڑ جاتے ہیں اور وہ نشے کے عادی ہوتے ہیں۔
اس طرح ان کے والدین پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ بات بھی تحقیق سے سامنے آئی ہے کہ ٹریفک حادثات اور غرق آب کا شکار زیادہ تر بچے یا جوان ہو تے ہیں۔اگر باریک بینی سے دیکھا جائے بچوں کی اس تباہی کے لئے وہ والدین ہی ذمہ دار ہیں جو بچوں کی ہر فرمائش بغیر کسی لعت و لعل کے پوری کرتے ہیں ،بنا ضرورت کے بچوں کو خوب روپیہ پیسہ دینا بھی انسانی جانوں کے اتلاف کی ایک بڑی وجہ ہے۔اعداد و شمار کے مطابق جموں کشمیر کی کل آبادی کا 2.5فیصد نشے کی عادی ہو چکی ہے جو ملک کی باقی ریاستوں کی نسبت کافی زیادہ ہے۔سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر اگر چہ ڈرگ کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے یا پولیس محکمہ ڈرگ اور کم عمر والے اُن بچوں کے خلاف کارروئیاں کرتا ہے جو بغیر لائسنس کے بائیک یا گاڑیاں تیز رفتاری کے ساتھ چلاتے ہیں۔
تاہم یہ اقدام اُس وقت تک کارگر ثابت نہیں ہو سکتا ہے جب تک نہ عام لوگ خود اپنے بچوں کو صحیح راستے پر لانے کے لئے اخلاقی تعلیم نہیں دیں گے۔اہل علم و دانش کا کہنا ہے کہ والدین ہی بہتر ڈھنگ سے بچوں کو خوشحال زندگی گزارنے کے گُرسکھا سکتے ہیں کیونکہ والدین ہی بچے کےپہلے استاد ہوتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ انتظامیہ اور غیر سیاسی ادارے متحرک ہو کر گھر گھر مُہم شروع کر کے عام لوگوں حاصکر والدین کو بچوں کی بہتر پرورش اور اخلاقی تعلیم دینے کے لئے باخبر کریں تاکہ ان حادثات پر روک لگ سکے۔





