33برس بعد سرینگر میں 8محرم الحرام کے سلسلے میں تاریخی ماتمی جلوس کو اپنے روایتی راستے سے برآمدکرنے کی اجازت دی گئی ،جس کے بعد عزاداروں نے یہ جلوس روایتی راستے سے برآمد کیا ۔یہ جلوس شہید گنج سے برآمد ہوا۔ بڈشاہ پل اور مولانا آزاد روڈ سے ہوتا ہوا یہ جلوس ڈلگیٹ سرینگر میںپرامن طور پر اختتام پذیر ہوا ،جس دوران شہر سرینگر کی فضائیں یاحسین ؑ کی صداﺅں سے گونج اٹھیں ۔مرکزی حکومت اور جموں وکشمیر کی انتظامیہ اس موقعے کو اپنی کامیابی تصور کرے گی ،کیوں کہ5اگست2019کے فیصلہ جات کے بعد جموں وکشمیر خاص طور پر وادی کشمیر میں ہر طرح کے حالات یکسر تبدیل ہوئے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اب گلی کوچوں میںتشدد نہیں ہوتا ہے ،ہڑتال کالوں پر قفل لگ گئے ۔ملی ٹنسی کے واقعات میں بھی نمایاں کمی آئی ،اب آئے روز انکاﺅنٹر نہیں ہوتے ۔یہی وجہ ہے کہ وادی کشمیر کی تاریخ میں نئی نئی تاریخیں رقم ہورہی ہیں ۔8محرم الحرام کے سلسلے میں تاریخی ماتمی جلوس کو برآمد کرنا اور پرامن طور پر اختتام پذیر ہونا ،ایک نئی تاریخ ہے ۔اگرچہ 6 بجے صبح سے8بجے صبح تک اس جلوس کو برآمد کرنے کی مشروط اجازت دی گئی ،لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ اب کی بار سیکیورٹی فورسز کو نہ تو لاٹھیاں برسانی پڑیں اور نا ہی ٹیر گیس شلنگ کر نی پڑی اور ناہی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں ۔بلکہ بدلتے حالات میں سیکیورٹی اداروں نے عزاداروں کو معقول اور مثالی سیکیورٹی بندوبست فراہم کئے ۔ کہہ سکتے ہیں اب واقعی وادی کشمیر کے حالات بدل رہے ہیں ۔اس کامیابی کا سہرا مقامی انتظامیہ ،مرکزی سرکار اور سیکیورٹی ایجنسیوں واداروں کے سر جاتا ہے ۔8محرم الحرام کے سلسلے میں جلوسِ عزا برآمد ہونے کے بعد اب ساری نظر یں اور توجہ 10محرام الحرام پر ہے۔کہ آیا اس روز بھی عزاداروں کو روایتی راستے سے جلوس نکالنے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں؟ ۔ ماضی میں یہ جلوس آبی گزر سے برآمد ہو کر شہر کے مختلف راستوں سے گزار کرامام باڈہ جڈی بل میں اختتام پذیر ہوا کرتا تھا ۔ اس جلوس کا فاصلہ کافی طویل ہے اور سیکیورٹی ایجنسیوں کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے لئے معقول انتظامات کرنے کی ضرورت ہے ،تاکہ امن وامان کی صورت ِ حال برقرار رہ سکے ۔چونکہ اب کشمیر کے حالات بدل رہے ہیں اور بدلتے حالات میں بہت کچھ بدل رہا ہے ۔لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا اب سوچ بھی بدل رہی ہے یا نہیں ؟۔
وادی کشمیر میں امن وامان کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لئے عوام پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ،کیوں کہ وہی اس کے اصل اسٹیک ہولڈر ہیں ۔عوام کے دست تعاﺅن سے امن وامان کی فضا کو برقرار رکھا جاسکتا ہے جبکہ سیاستدانوں اور مذہبی راہنما ﺅں کا رول بھی اہم بنتا ہے ۔اب آگے بڑھ کر مستقبل کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔کیوں کہ ماضی ہمیں تلخ وشیریں یادوں سے سر فراز کرتا رہتا ہے جبکہ حال ہمیں سبق سیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔لہٰذا اب ہمیں مستقبل کی فکر کرنی چاہیے ۔جلوس برآمد کرنا اور اسکی اجازت دینا ایک اچھا پیغام توہے ،لیکن قیام امن کے لئے ابھی بھی کئی منازل طے کر نے ہیں ۔ایسے میں عوام کے اعتماد کو اور زیادہ جیتنے کی ضرورت ہے ،کیوں کہ عوام کے اعتماد سے ہی کامیابی کے کہکشاں پر کمند ڈالی جاسکتی ہے ۔اعتماد سازی کے اقدامات سے ہی اعتماد اور امن کی اصل فضا قائم ہوگی ۔





