مانیٹر نگ ڈیسک
سری نگر: آرٹیکل370 اور35 (اے) کی منسوخی کے چار برس مکمل ہونے سے چند دن قبل لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ سڑکوں پر تشدد اور ہڑتال کالوں کا خاتمہ اور آزاد ماحول میں شہریوں کا اپنی زندگی گزارنا، مرکز کے زیر انتظام جموں وکشمیرمیں گزشتہ چار سالوں میں سب سے بڑی کامیابیاں ہیںں۔ڈی ڈی نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے سیکورٹی اور ترقیاتی محاذوں پر کئی کامیابیوں کو شمار کیا اور کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکومت ہند نے 5 اگست 2019 کو ایک جرات مندانہ فیصلہ لیا جس نے دفعہ 370 اور 35(اے) کو منسوخ کر دیا۔ان کا کہناتھا ”گزشتہ چار سالوں کے دوران جموں و کشمیر نے نچلی سطح پر بڑے پیمانے پر اصلاحات دیکھی ہیں۔ چند عناصر کی طرف سے سڑکوں پر ہونے والا تشدد ختم ہو گیا ہے۔ علیحدگی پسندوں، ملی ٹنٹوں اور پاکستان کی طرف سے ہڑتال کی کال دیناماضی بن چکاہے۔“ انہوں نے کہا ’ اس کے علاوہ عام آدمی آزاد ماحول میں اپنی زندگی گزار رہا ہے۔ یہ پچھلے چار سالوں میں ہونے والی اہم کامیابیاں ہیں۔“
33.45منٹ کے انٹر ویو کے دوران لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے مزید کہا، "اس کے علاوہ، 2ایمز اسپتال، 2 کینسر ہسپتال، 7 میڈیکل کالج،آئی آئی ٹی ،آئی آئی ایم ،این آئی ایف ٹی ، ہائی وے اور ٹنل پروجیکٹس پر 1.50 لاکھ کروڑ روپے کی لاگت سے کام کیا گیا ہے‘۔ایل جی منوج سنہا نے کہا کہ ایک وقت تھا جب ملی ٹنٹوں کے خوف سے لوگ غروب آفتاب سے قبل ہی گھروں کو لوٹ جاتے تھے لیکن آج دکانیں رات گئے تک کھلی رہتی ہیں، نوجوان موسیقی سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور بزرگ جہلم کے کنارے چہل قدمی کررہےہیں،اس سب نے حکومت پر عام عوام کا اعتماد بحال کیا ہے۔یہ پوچھے جانے پر کہ جموں وکشمیر کی انتظامیہ نے تبدیلی کو کیسے یقینی بنایا، ایل جی سنہا نے کہا کہ تبدیلیاں سیکورٹی ایجنسیوں کے درمیان بہتر تال میل کی وجہ سے ہوئیں۔ انتظامیہ نے ایک مقصد طے کیا کہ امن خریدا نہیں جائے گا بلکہ اسے قائم کیا جائے گا۔ملی ٹنسیسے غریب سب سے زیادہ متاثر ہوئے جنہوں نے گزشتہ برسوں میں بہت نقصان اٹھایا۔
جموں وکشمیر میں سیاحوں کی تعداد میں اضافے پر ایل جی سنہا نے کہا کہ گزشتہ سال ایک کروڑ 88 لاکھ سیاحوں نے جموں و کشمیر کا دورہ کیا، جس کے نتیجے میں ہوٹلوں، ٹیکسی والا، شکارا والا وغیرہ کے لیے روزگار کے راستے کھل گئے، اس سے جموں و کشمیر کی معیشت کو فروغ ملا، تاہم چند شرپسند عناصر ماضی میں عسکریت پسندی اور علیحدگی پسندی کو پروان چڑھانے کے لیے متوازی معیشت چلانے کی کوشش کر رہے تھے جس کی آج اجازت نہیں دی جائے گی۔خاندان پرستی اور بدعنوانی پر ایل جی منوج سنہا نے کہا’جموں و کشمیر انتظامیہ نے شفافیت اور کارکردگی کے لیے” پیرامیٹرز “(عوامل )طے کیے ہیں۔ جموں وکشمیر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور پورے ملک میں کسی یوٹی یا ریاست سے کم نہیں ہے۔ ای گورننس میںیوٹی سطح پر جموں وکشمیر نمبر۔ ایک پر ہے۔ ہم نے 450 سے زیادہ خدمات آن لائن رکھی ہیں۔ پبلک سروس گارنٹی ایکٹ اس مقصد کے ساتھ لاگو کیا گیا ہے کہ عام آدمی اسکیموں کی سہولیات بروقت حاصل کر سکے‘۔
انہوں نے مزید کہا،’جب میں نے چارج سنبھالا تو 9229 پراجیکٹس کیے گئے تھے لیکن آج ہم نے 92600 پراجیکٹس مکمل کیے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ترقیاتی محاذ پر 10 گنا زیادہ بہتری آئی ہے۔‘منوج سنہا نے کہا ’تین درجے پنچایتی راج نظام نافذ کیا گیا ہے۔ حال ہی میں جی۔ 20 ٹورازم ورکنگ گروپ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں مندوبین اور عام لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکتکی۔ اجلاس کے بعد بیرونی ممالک نے کشمیر کے سفر پر پابندی ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ 32 سے 33 ہزار منتخب نمائندے ترقیاتی کاموں کے فیصلے اور نگرانی کر رہے ہیں۔ آج کاموں کی ادائیگی خزانے سے نہیں کی جا رہی ہے جب تک کہ کئے گئے کاموں کی تصاویر متعلقہ ڈیسک کو نہیں بھیجی جاتی ہیں۔‘
زمین برائے بے گھر اسکیم کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ گور نر منوج سنہا نے کہا کہ’ پی ایم اے وائی اسکیم‘ ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کی طرح پہلے سے ہی موجود ہے ،جہاں زمین صرف مقامی لوگوں کے لیے مختص کی گئی ہے۔ اسی کو جموں و کشمیر میں لاگو کیا گیا ہے۔ جموں و کشمیر کا نان ڈومیسائل جموں و کشمیر میں زرعی زمین نہیں خرید سکتا۔ تاہم جب میں کہتا ہوں کہ صنعتوں، ہوٹلوں، اسپتالوں، تعلیمی اداروں وغیرہ کے لیے سرمایہ کاری ہوگی تو ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ ایسا انفراسٹرکچر آسمان پر نہیں بنے گا،یہ زمین پر آئے گا۔ اس فیصلے کا جموں و کشمیر کے لوگوں نے بڑے پیمانے پر خیرمقدم کیا ہے۔‘
منوج سنہا نے کہا’ پی ایم اے وائی اسکیمکے تحت ہمیں ان لوگوں کو 199500 مکانات دینے ہیں جن کے پاس اپنی پناہ گاہیں نہیں ہیں،اس تعداد میں سے 2711 مستحق و اہل درخواست دہندگان نے ہم سے رابطہ کیا ہے جنہیں 5 مرلہ زمین دی گئی ہے، میرا خیال ہے کہ ایسے فیصلوں کو سیاسی نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے، جو لوگ ماضی میں سرکاری زمین استعمال کرتے تھے اور اسے اپنی ملکیت سمجھتے تھے وہ سمجھ لیں کہ وقت بدل گیا ہے۔‘ ایل جی سنہا نے مزید کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے پورے ملک میں غریبوں، کسانوں اور بے روزگاروں کو بااختیار بنایا ہے اور جموں و کشمیر اس اقدام کا حصہ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری صنعتی پالیسی ملک کے دیگر حصوں سے کہیں بہتر ہے۔ان کا کہناتھا ’ہم بھاری مراعات دے رہے ہیں۔ مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ جموں وکشمیر کو80ہزار کروڑ کے علاوہ سرمایہ کاری کی پیشکشیں موصول ہوئی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں 75ہزار کروڑ کی سرمایہ کاری ضرور آئے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ تین برسوں میں نوجوانوں کو28ہزار سے زائد سرکاری نوکریاں دی گئیں۔ان کا کہناتھا ’ملک کی دیگر یو ٹیز اور ریاستوں کے مقابلے جموں و کشمیر میں سرکاری خدمات میں پہلے سے زیادہ لوگ موجود ہیں، سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے۔ انتظامیہ نے مختلف اسکیموں کے تحت نوجوانوں کی بحالی کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ جموں و کشمیر نے اس مقصد کے لیے خصوصی محکمہ مشن یوتھ جے اینڈ کے قائم کیا ہے۔ وہ نوجوان جو اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہونا چاہتے ہیں انہیں اپنے یونٹس قائم کرنے کے لیے مشن یوتھ جے اینڈ کے سے رجوع کرنا چاہیے۔“
کشمیری پنڈتوں کے بارے میں ایل جی سنہا نے کہا ’ جموں و کشمیر حکومت ان کے مسائل کو حل کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ کشمیری پنڈتوں کے لیے6ہزار نوکریوں اور 6ہزار مکانات کی اسکیم تھی۔ یہ ماضی کی حکومتوں کی’ کے پی‘ کے لوگوں کو نوکریوں اور پناہ گاہوں سے دور رکھنے کی سازش تھی۔ لیکن ہم نے ان اسامیوں کو تقریباً بھر دیا ہے۔ اس کے علاوہ6ہزارمکانات کے لیے زمین الاٹ کر دی گئی ہے اور کام پیشگی مرحلے میں ہے۔ انتظامیہ نے ’کے پی ‘ کے لیے 1700 سے 1800 رہائشی مکانات تعمیر کیے ہیں اور آنے والے مہینوں میں مزید مکانات بنیں گے۔ اگلے سال تک کے پی کے لوگوں کو مختص کوٹہ کے تحت گھر فراہم کر دیے جائیں گے۔‘
انہوں نے کہا ’ ہم نے اپنے دفتر میں کے پی کے لیے خصوصی افسر تعینات کیا ہے اور ان کے خدشات کو دور کرنے کے لیے جموں و کشمیر کے تمام اضلاع میں ضلعی سطح کے افسران کو تعینات کیا گیا ہے۔ انتظامیہ مذکورہ کمیونٹی کے ساتھ رابطے میں ہے۔ ان کے مطالبات جیسے محفوظ مقامات پر منتقلی، ترقیاں وغیرہ پر توجہ دی جارہی ہے۔ ہم نے اسے حکومت کی اولین ترجیح کے طور پر لیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی فلاح و بہبود اور بحالی کی بہت سی اسکیمیں پائپ لائن میں ہیں۔ مزید برآں کشمیری مسلمان بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ کشمیری پنڈت کشمیر کا حصہ ہیں۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں ایل جی سنہا نے کہا’ کشمیر 80 کی دہائی میں فلموں کی شوٹنگ کے لیے مشہور تھا لیکن ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس صنعت کو ملی ٹنتوں نے بری طرح متاثر کیا۔ آج کل سیاحتی مقامات پر فلمیں بن رہی ہیں۔ جموں و کشمیر بھر میں سینما گھر کھولے جا رہے ہیں۔ انتظامیہ جموں و کشمیر میں سیاحت کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے بنیادی ڈھانچے کو بڑھا رہی ہے۔“پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کے ملازمین کی برطرفی کے بارے میں دیے گئے بیان کے بارے میں ایل جی سنہا نے کہا کہ جن لوگوں نے عسکریت پسندوں کی مدد سے سرکاری ملازمتیں حاصل کی ہیں، انہیں بغیر سمجھوتہ کے نکال دیا جائے گا۔ان کا کہناتھا ’ہمارے عظیم رہنماو¿ں نے ایک شق 311 (سی) بنائی ہے جو کسی بھی ایسے شخص کی خدمات کی وضاحت کرتا ہے جو ریاست کے لیے خطرہ ثابت ہو گا اور اس کی سلامتی کو ختم کر دیا جائے گا اور مجھے نہیں معلوم کیوں بہت کم لوگ اس میں برا محسوس کر رہے ہیں۔‘
اسمبلی انتخابات کے بارے میں ایل جی سنہا نے کہا ’جموں وکشمیر انتظامیہ انتخابات کے لیے پوری طرح سے تیار ہے لیکن یہ الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) پر منحصر ہے جسے اس پر فیصلہ کرنا ہے۔ ،یوٹی میں اسمبلی انتخابات کے انعقاد کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے کئی اقدامات کی ضرورت تھی، ووٹر لسٹوں کی نظر ثانی اورنئی حد بندیاں کرنی تھیں۔ بہت کم لوگ اس پر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ ای سی آئی ہے جس نے شیڈول کا اعلان کرنا ہے۔مرکزی وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا تھا کہ پہلے حد بندی، پھر انتخاب اور بعد میں ریاست کا درجہ، ملک میں آئینی عہدوں پر فائز افراد کو معلوم ہونا چاہیے کہ پارلیمنٹ سے کیے گئے وعدے کی اہمیت کیا ہے۔‘
امرناتھ یاترا کے بارے میں ایل جی سنہا نے کہا کہ یہ یاترا مذہبی یاترا سے باہر ہے اور جموں و کشمیر کی ثقافت کو اجاگر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 23 دنوں میں3.20 لاکھ یاتریوں نے مقدس غار کا درشن کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پچھلے سالوں کے مقابلے پچھلے تین ہفتوں میں 83ہزار یاتریوں نے یاترا کی ہے۔ سماج کے ہر طبقے بالخصوص کشمیری مسلمانوں نے یاترا میں بھرپور تعاون کیا ہے۔ یہ مقامی معیشت کو فروغ دیتی ہے، یاتری جموں و کشمیر کے برانڈ ایمبیسیڈر ہیں، اس سال غیر ملکی یاتریوں نے بھی یاترا کی، میں سبھی کو ان کے تعاون اور یاترا کو کامیاب بنانے کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔‘