وادی کشمیر خاص طور پر گرمائی دارالحکومت سرینگر اور اسکے مضا فات سے اب ایسے خبریں سامنے آرہی ہیں ،جو نہ تشویشناک ہیں بلکہ قدآور کشمیری سماج کے لئے لمحہ فکریہ بھی ۔نقب زنی ،شٹر توڑ کر دکانیں لوٹنا ،موٹر سائیکل اور کار یں اڑانا اور ان وارداتوں میں نوجوانوں کا ملوث ہونا ،خاص طور پر ان نوجوانوں کا جن کی عمریں جوانی کی دہلیز پر ہوتی ہے یا پھر ابھی اس دہلیز سے کچھ فاصلے پر ۔کہنے کا مقصد13 سے 15 سال یا پھر 17سے 20 سال کی عمر میں چوری کی وارداتیں انجام دینا ،اپنے آپ میں غور طلب بات ہے کہ آخر کشمیری سماج میں نوجوان نسل اس قدر جرم اور جرائم کی دلدل میں کیوں کر پھنستی جارہی ہے ۔
وجوہات بہت سارے ہیں ۔تاہم نشے کی لت ،نشا صرف سگریٹ یا اس سے خطرناک شئے یا پھر منشیات کا ہی نہیں بلکہ دکھاوے کا نشا ،موٹر سائیکل ،موٹر کار اور جیب میں کرارے نوٹ جبکہ بینک کھاتے میں ڈیر سارا ’بیلنس‘ اس کا نشا بھی تو ہے ،جس نے ہمارے سماج کی اخلاقی قدریں تباہ وبرباد کردی ۔ جرم اور جرائم کی اس دنیامیں لڑکیاں بھی قدم رکھ رہیہیں ۔بعض خبریں ایسی ہوتی ہیں ،ایسا لگتا ہے کہ یہ سماج میں معمول بن چکا ہے ،لیکن اب ایسے خبریں سامنے آرہی ہیں ،جو پیشہ ورصحافیوں کے لئے بھی حیران کن اور چونکادینے والی ہیں ۔چھرا زنی کی وارداتیں بھی اب کشمیری سماج کا حصہ ہیں ۔اب لوٹ کی وارداتیں انجام دینے کے لئے نئے نئے حربے آزمائے جارہے ہیں ۔کوئی جعلی پولیس افسر ،کوئی جعلی رپورٹر ،کوئی جعلی ڈاکٹر ،کوئی جعلی وکیل ،کوئی خفیہ ادارے کا جعلی افسر اور بھی نہ جانے کیا کیا ؟جرم کی اس د نیا میں وہ نام بھی سامنے آرہے ہیں ،جنہوں نے صحافت کے مقدس پیشے کوئی ہی بدنام کر کے رکھ دیا ۔اب خود کوصحافی کہنا یا اس پیشے سے وابستہ ہونے کا نام لینا بھی باعث شرم محسوس ہوتا ہے ۔
آج کل جس طرح کی خبریں سامنے آرہی ہیں اور اخبارات کی زینت بن رہی ہیں ،وہ ہم سب کو احساس ِ ذمہ داری کے لئے جھنجھوڑ رہی ہیں ۔ایسی خبریں ایک سوچ چھوڑ رہی ہیں ۔پولیس تفتیش کے بعد خبروں میںآنے والی عمر وہ عمر ہے، جس میں بچے یا تو پڑھنے میں مصروف ہوتے ہیں یا پھر ان کو پڑھائی کے ساتھ کھیل کی فرصت نہیں ہوتی۔ یہی وہ نوجوان نسل ہے، جس نے آگے بڑھ کر اس ملک کی ترقی میں ہاتھ بٹانا ہے۔مگر ایسا کیوں ہے کہ اس عمر کے بچے جرائم کرتے ہیں۔ اگر اس بات کی تحقیق کی جائے تو اس کے معاشی اور معاشرتی پہلووں کے علاوہ نفسیاتی پہلو بھی نکلتے ہیں۔سرینگر میں چھرا زنی کی وارداتیں اس قدر تشویشناک رخ اختیار کر گئیں کہ ضلع مجسٹریٹ کو تیز دھار ہتھیار کی خر ید وفروخت پر پابندی عائد کرنی پڑی ۔پہلے تو کبھی ایسے حکمنامے صادر نہیں ہوئے ۔ہمارے لیے ان وجوہات کو جاننا بے حد ضروری ہے، جو نوعمر بچوں کو جرائم کی دلدل میں دھکیلنے کے لیے کافی ہیں۔ بچے مستقبل کے معمار اور آنے والے اچھے وقت کی امید ہوتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہوتا ہے کہ اوائل عمری میں ہی بچوں کی درست ترجیحات کا تعین کرنے میں ان کی مدد کی جائے۔ہمیں بطور معاشرہ اب خود احتسابی کی ضرورت ہے کہ ہمارا معاشرہ کس اور جارہا ہے؟ ۔کیوں ہماری نوجوان نسل جرم اور جرائم کی دلدل میں پھنس رہی ہے ۔
اس نوجوان نسل کو اس دلدل سے باہر نکالنے اور اس سے محفوظ رکھنے کے لئے تمام طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر آگے آکر لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے۔والدین کو ذمہ دارانہ رول ادا کرنا ہوگا ،مستقبل کو سنوار نے والے اساتذہ کو فرض سمجھ کر اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ،کیوں کہ آپ کے پیشے پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں ۔اگر یہاں سے بھی مایوس ہاتھ آئے ،تو کشمیر کا مستقبل تاریک اور سماج تباہ وبر باد ہوجائے گا ۔