بدھ, اگست ۲۰, ۲۰۲۵
19 C
Srinagar

عوام ، لازمی اشیاءکی قلت

نا موافق موسمی صورت ِ حال کے سبب گزشتہ چند روز کے دوران کشمیر شاہراہ (سرینگر ۔جموں قومی شاہراہ ) یا نیشنل ہائی وے۔44بند رہی ۔شاہراہ بند ہونے کے سبب وادی کشمیر میں لازمی اشیاءکی قلت شدت سے محسوس کی جارہی ہے ۔جموں وکشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر میں بیشتر پیٹرول پمپ یا تو بند ہیں۔ جو کھلے ہیں ،وہاں پیٹرول اور ڈیزل حاصل کرنے کے لئے گاڑیوں اور موٹر سائیکل سواروں کی قطاریں نظر آرہی ہیں ۔ اگرچہ حکام نے پلاسٹک کے کینوں یا ٹین کے ڈبوں میں پیٹرولیم مصنوعات کو فروخت کرنے پر پابندی عائد کردی ہے ۔

تاہم بلیک مارکیٹ میں سر ِ عام پیٹر ول پلاسٹک کی بوتلوں میں فروخت کیا جارہا ہے اور بلیک مارکیٹ کے منافع خور افراد پیٹرول فی لیٹر ایک سو سے زیادہ روپے میںفروخت کررہے ہیں ۔اگرچہ حکام کہہ رہے ہیں کہ وادی کشمیر میں لازمی اشیاءبشمول پیٹرولیم مصنوعات کی کوئی کمی نہیں ہے اور یہ بات بار بار کہی جارہی ہے کہ وادی میں اشیائے ضروریہ کی کمی نہیں ہے اور اس سلسلے میں کسی کو پریشان ہونا یا گھبرانا نہیں چاہئے۔ اس یقین دہانی پر کسی کو شبہ نہیں ہوسکتا مگر عام مشاہدہ یہ ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قلت دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔حکام کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ شاہراہ کھلنے کیساتھ ہی سپلائی دوبارہ بحال ہوگی اور ہوچکی ہے ۔

تاہم زمینی صورت ِ حال حکام کے دعوﺅں کے برعکس ہے ۔سرکاری راشن گھاٹ بھی خالی ہی نظر آرہے ہیں ۔سبزیوں اور پھلوں کی قلت بھی شدت کیساتھ محسوس کیا جارہا ہے جبکہ مہنگائی کی بھٹی میں پہلے ہی عوام جل رہے ہیں اور اب قیمتوں میں پَر لگنے سے عام آدمی کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ٹماٹر ملک بھر کیساتھ ساتھ وادی کشمیر کے بازاروں سے بھی غائب اور مہنگے داموں پر فروخت ہورہے ہیں ۔پیاز اور آلو نے عام آدمی کے آنسو نکال دیئے جبکہ کشمیری ساگ بھی نایاب ہوچکا ہے ۔ لازمی اشیاءکی قلت کا ایک بڑا سبب ذرائع نقل و حمل کا مسدود ہونا ہے۔

حکومت کو اس کیلئے خاص انتظام کرنا چاہئے تھا تاکہ سامان لانے والے ٹرکس کو راستے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔ چونکہ شاہراہ بند ہوئی ،اس لئے کیفیت یہ ہوگئی کہ جو ٹرک جہاں تھا وہیں ر±ک گیا۔اگرچہ اس طرح کے سخت چیلنجز کا سامنا اہلیان کشمیر کو ماضی میں بھی کرنا پڑرہا تھا ،لیکن اکیسویں صدی میں ایسا ہونا ،انتظامیہ کی کار کردگی پر سوالیہ لگا رہا ہے ۔زمینی رابطوں کے نیٹ ورک کو جدید طرز پر تعمیر کیا گیا ہے ۔سڑکیں اب ون وے سے ٹو وے اور فور لائن میں تبدیل ہوچکی ہیں اور پہاڑی سلسلوں میں سرنگیں بنائی گئیں ،لیکن اس کے باوجود وادی کو زمینی رابطے منقطع ہونے پر مسائل کا سامنا رہتا ہے ۔وادی میں مرکزی حکومت نے اب ریل رابطہ بھی قائم کیاہے اور فضائی سروس بھی موجود ہے ۔

لیکن اس کے باوجود لازمی اشیاءکی قلت کا سامنا عوام کو کر نا پڑتا ہے ،جسکی مثال ہمیں پہلگام میں پولیس کارروائی سے بخوبی ملتی ہے ،جہاں پولیس نے ایک دکاندار کو 187روپے میں پیٹرول فی لیٹر فروخت کرنے پر دھر لیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ یہ صور ت ِ حال کیوں پیدا ہوتی ہے ؟اس کے لئے ذمہ دار کون ہے ؟انتظامیہ کو روایتی بیان بازی کی بجائے صورت حال اور چیلنجز سے نمٹنے کے لئے مﺅثر حکمت عملی اور منصوبہ ترتیب دینا چاہیے ،تاکہ گراں فروشوں ،منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو لوٹنے کا کوئی موقع نہ ملے جبکہ اُن کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرنے کا وقت بھی آیا ہے ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img