بدھ, دسمبر ۱۷, ۲۰۲۵
14.4 C
Srinagar

سیلاب کی پھر باز گشت!

وادی کشمیر میں گزشتہ 24گھنٹوں کے دوران موسمی حالات ناموافق تصور کئے جارہے ہیں ،کیوں کہ عام لوگوں کو سیلاب کا ڈر ستا رہا ہے ۔متعلقہ محکمہ دریائے جہلم میں سطح آب سے متعلق ہر گھنٹے کے بعد اپ ڈیٹ دے رہا ہے جبکہ متعلقہ کے چیف انجینئر نے کہا ہے کہ گھبرا نے کی ضرورت نہیں ہے اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے ہماری ٹیمیں متحرک ہیں ۔اگر دیکھا جائے تو اس وقت بنی نوع انسان اپنی بقا کے حوالے سے مقامی ، علاقائی اور عالمی سطح پر پیش آنے والے سب سے اہم مسئلے اور چیلنج یعنی موسمیاتی تبدیلیوں سے نبر د آزما ہے۔موسمی تبدیلی دراصل آب وہوا کے قدرتی نظام میں پیدا ہونے والے بگاڑ کا نام جس کی بڑی وجہ انسانی طریقوں ، معمولات ، استعمالات اور خواہشات میں بگاڑ کا پیدا ہونا ہے۔انسان اس قدر خود غرض اور لالچی ہوگیا ہے ،وہ اپنے لئے عیش وعشرت کا سامان پیدا کرنے کے لئے اپنے پاﺅں پر خود کلہاڑی بھی مار تا ہے۔سر سبز جنگلات میں جب یہ انسان کلہاڑا لیکر جاتا ہے ،تو نیت بد میں یہ نہیں دیکھتا کہ ضرورت سے زیادہ لکڑی کی کٹائی، اس کے اگلے پل کے لئے موت بن سکتی ہے۔جنگلات کی بے دریغ صفائی کے سبب ماحولیاتی توازن بگڑ چکا ہے اور اب اس کو سنبھالا نہ صرف ملکوں کے لئے مشکل ہورہا ہے بلکہ پورا عالم بھی اپنی غلطی کے سبب قدرتی آفتوں سے دنیا کو محفوظ نہیں رکھ پارہا ہے۔

ویسے بھی یہ قدرت کا نظام ہے کہ چھیڑ چھاڑ کا اثر ہوتا ہے۔جنگلی حیات کا مسکن چھن چکا ہے ،اس لئے وہ آبادی والے علاقوں پر حملہ آور ثابت ہورہا ہے۔اسی طرح آبی ذخائر کو آلودہ کرکے اب ہم بوند بوند کے لئے ترس رہے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ جبری اور غیر قانونی قبضہ کرکے ہم نے تعمیرات تو کھڑی کی لیکن یہ کب ڈھہ جائیں گی ،اس کا سد باب نہیں کرسکے۔ہوا کو بھی نہیں بخشا ،اب سانس لینا بھی دشوار ہوگیا ہے اور اگر یوں کہیں کہ سانس لینے کی جنگ جاری تو غلط نہ ہوگا۔پہاڑوں کو بھی نہیں بخشا گیا ،جو ہماری حفاظت کے لئے تھے اور ہم نے اپنے ہاتھوںسے ہی حفاظتی دیوار کو منہدم کردیا۔الغرض یہ کہ انسان نے اپنے لئے عیش وعشرت کا سامان تو پیدا کیا لیکن اس سب میں وہ یہ بھول گیا کہ اس نے اس آفت کو دعوت دی ہے ،جو پل بھر میں اس سامان کو تہس نہس کرسکتی ہے۔

ندی نالے جو ہمیں با وقار روزگار دیتے تھے ،وہاں بھی جدید طرز کی دکانیں کھڑی کیں۔اس لئے مرز ا غالب صاحب کہہ گئے (آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک۔۔کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک)۔وادی کشمیر میں اس وقت موسمی صورت حال بے یقینی اور بے ہنگم ہے۔بارشیں شروع ہونے کیساتھ ہی سیلاب آئے گا یا نہیں ؟کی بحث شروع ہوتی ہے۔

ہر طرف سیلاب کے خد شات اور تحفظات کی باز گشت پھر ہورہی ہے۔ایسا کیوں ؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔سرکار کو اپنی سطح پر اس سوال کا جواب تلاش کر نے کی ضرورت ہے جبکہ ہمیں معاشرتی ذمہ دارویوں کا احساس کرتے ہوئے اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا۔اگر ہم جواب تلاش کرنے میں مشترکہ طور پر کامیاب ہو ئے ،تو یقین ما نیئے ہم اس مسئلے کا حل آسانی سے تلاش کر پائیں گے۔ہم سب کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا ،ذمہ داریوں کا بھی حساس کرنا ہو گا ،انفرادی اور اجتماعی سطح پر خود احتسابی کرنے کی ضرورت ہے۔

جب ہم خود احتسابی کریں گے ،ہمیں جواب بھی ملے گا اور چیلنجز سے نمٹنے کاموثر ہتھیار بھی ہاتھ میں آئے گا۔اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے ہمیں جوہر ی ہتھیار اور بندوقوں کی خد ا نا خواستہ ضرورت نہیں ہے بلکہ ہم اپنے شعور، مشترکہ ذمہ داریوں،عزم اور لائحہ عمل سے اس سنگین چیلنج کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔کثافت کو دور کرنے کے لئے شجر کاری ضروری ہے ،صاف وشفاف آب وہوا کے لئے زہر یلے دھواں کے اخراج کو روکنا ہوگا ،آبی ذخائر کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا ، ڈریجنگ کرنی ہوگی،دریائے جہلم اور معاون ندی نالوںگہرائی والی صلاحیت بڑھانی ہوگی ،تب جاکر واٹر ٹرانسپورٹ بھی چلے گا اور خدشات اور خوف کی لہر بھی دور ہوجائے گی ۔دریائے جہلم کی حفاظتی دیوار کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا ،غیر قانونی تعمیرات کو روکنا ہوگا ،بیداری مہم چلانے کی بھی ضرورت ہے۔اسکولی سطح پر ہفتے میں ایک مرتبہ اس پر بحث و مباحثے کا اہتمام ہونا چاہیے۔جب تک ہم مشترکہ ذمہ داریاں نہیں نبھائیں گے ،تب تک سیلاب آئے گا یا نہیں ؟اسکی باز گشت سنائی دے گی ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img