زاہد علی خاں اثر :سنجیدہ ،نعتیہ اور مزاحیہ شاعری کا بے مثال امتزاج

زاہد علی خاں اثر :سنجیدہ ،نعتیہ اور مزاحیہ شاعری کا بے مثال امتزاج

شوکت ساحل

سرینگر :: آواز کی دنیا کے بے تاج بادشاہ کہلانے والے آل انڈیا ریڈیوکے معروف ’ نیوز کاسٹر واناﺅنسر‘ زاہد علی خاں اثر سنجیدہ ،نعتیہ اور مزاحیہ شاعری کے بے مثال امتزاج ہیں ۔انہوں نے فارسی اورعربی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ،لیکن ساری عمر اُردو زبان کی ترقی وترویج کے لئے نا قابل ِفراموش خدمات انجام دیں اور انتہائی لگن سے آبیاری کی ۔

زاہد علی خاں اثر نے دورہ کشمیر کے دوران ایشین میل ملٹی میڈیا کے ہفتہ وار پروگرام ” بزم ِ عرفان “ میں اپنے انتہائی عزیز رفیق اوروادی کشمیر کے معروف براڈ کاسٹر عبدالاحد فرہاد سے خصوصی گفتگو کی ،جس دوران انہوں نے اپنے بچپن کے حسین لمحات اور شاعری کے سفر سے متعلق خلاصہ کیا ۔

بچپن کی یادیں،تعلیم اور حسین سفر
آل انڈیا ریڈیوکے معروف ’ نیوز کاسٹر واناﺅنسر‘ زاہد علی خاں اثر کی پیدائش ،اتر پردیش کے ضلع بلند شہر کے مرکزی قصبہ میں ایک متوسطہ گھرانے میں ہوئی ۔زاہد علی کے والد سرکاری ملازم تھے اور ملازمت کے سلسلے میں اُنہیں مختلف ریاستوں میں ڈیوٹی انجام دینی پڑتی تھی ،اس لئے نقل مکانی مجبوراً ہوا کرتی تھی ۔ زاہد علی نے بچپن کے آٹھ برس ریاست اترا کھنڈ کے دارالحکومت دھرا دھن میں گزارے اور یہیں ابتدائی تعلیم بھی حاصل کی ۔1947میں تقسیم ہند کے بعد اُن کا خاندان دہلی منتقل ہوا ۔

سنہ1948میں والد صاحب کی ملازمت کا سلسلہ ملک کے دارالحکومت دہلی میں جب دوبارہ شروع ہو ا ،تو انہوں نے زاہد علی کو تعلیم کے نور سے منور کرنے کے لئے اُس وقت کے مشہور ومعروف مدرسہ جو بعد ازاں ’ اینگلو عربک سینئر ہائر اسکینڈری اسکول ‘ کے نام سے مشہور ہوا، میں داخل کرایا۔جہاں زاہد علی خاں نے مستقبل کی پڑھائی حاصل کی اور یہ سفر دہلی یونیورسٹی میں فارسی مضمون میں ماسٹرس کی ڈگری حاصل کرنے تک جاری رہا ۔

شاعری، ریڈیو اور ملازمت  کا ملن
‘ زاہد علی خاں اثر کہتے ہیں کہ ’ثانوی تعلیم کے زمانے میں ساتویں ۔آٹھویں جماعت میں طنز ومزاح کے بہترین شاعر اوراُردو ۔فارسی کے اُستاد محترم شمیم کرہانی نے میرے اندر شاعرانہ مزاج اورروح کو اُس وقت محسوس کیا جب میں نے یہ شعر ” طبعیت کو بدلتی دیتی ہے یوں گردش زمانے کی ۔۔کہ اپنا آشنا نا آشنا معلوم ہو تا ہے “ اُن کی خدمت میں پیش کیا ۔‘ ان کا کہناتھا کہ اپنے استاد اور اُنکے خاندان کی صحبت میں رہنے کے دوران ہی اُن کے اندر شعر گوئی کا اصل جذبہ پیدا ہوا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ۔

ہائر اسکینڈری میں زیر تعلیم رہنے کے دوران ہی بعض گھریلو مجبوریوں اور حالات کے سبب سنہ1956میں آل انڈیا ریڈیو میں زاہد علی خاں کو ملازمت کرنے کا موقع ملا ۔انہوں نے کہا کہ آل انڈیا ریڈیو کے شعبہ عربی میں وہ ڈیڑھ برس تک اسسٹنٹ کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے ،جس دوران اُنہوں نے عربی پروگرام کے لئے” اناﺅنسر “کی خدمات بھی انجام دیں ۔بعد ازاں زاہد علی خاںنے آل انڈیا ریڈیو کے آدھے گھنٹے کے مقبول ترین اُردو پروگرام میں پروگرام سیکریٹری کے بطور اپنی خدمات بھی انجام دیں ۔

9مارچ1965میں وہ آل ریڈیو کے اردو خبر نامہ کے ساتھ منسلک ہوئے اور ’اردو نیوز کاسٹر ‘ کے بطور اپریل1999تک نیوز کاسٹر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیتے رہے، البتہ شعر وشاعری کا دامن نہیں چھوڑا اور دوران ملازمت روش صدیقی مرحوم اور سلام مچھلی شہری مرحوم سے ضرورت بھر صلاح مشورہ جاری رکھا ۔زاہد علی خاں اثر نے بتایا کہ اپنے تین اساتذہ کی حوصلہ افزائی کے سبب اور اُن کی ہمراہی میںاُنکی شاعری اور ادبی دلچسپی کو مہمیز ملی ۔

شاعری مجموعے


ان کا کہناتھا کہ اس دوران وہ جو بھی قلمبند کرتے تھے ،اُس کو محفوظ کیا کرتے تھے اور کچھ اشعار ،تحریریں اور مضامین اخبارات اور ہفتہ وار وماہانہ رسالوں میں چھپتے رہے لیکن اُن کے کلام نے کتابیں شکل اختیار نہیں کی تھی ۔ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے اپنے کلام کو کتابی شکل میں ڈھالنے کے لئے کام کرنا شروع کردیا۔سنہ2002میں اُن کی پہلی تصنیف ’آئینہ در آئینہ ‘ (خاکے اور افسانے)منظر ِ عام پر آئی ۔سنہ2007میں دل صد پارہ ،سنہ2009میں رقص دل(غزلیات) ، سنہ 2011میں تاک جھانک(خاکے انشائیے) ، سنہ 2015میںعود وعنبر(غزلیات) ، سنہ 2017میں رحمت ِ تمام (حمد ونعت کا مجموعہ) اورموشگافیاں(مزاحیہ کلام ) ،شعلے آرزو ( غزلیات)اور آخر پر بچوں کے لئے ’بات پھولوں کی‘ کتاب شائع ہوئی ۔زاہد علی کو سنہ2009میں شائع رقص ِ دل ، سنہ 2017میں رحمت ِتما م اور موشگافیاں کے لئے دہلی اردو اکیڈمی کی جانب سے اعزاز سے بھی نوازا گیا ہے ۔مزید کئی کتابیں زیر ترتیب ہیں اور آنے والے وقت میں یہ کتابیں بھی شائع ہوجائیں گی ۔

اردو زبان اور ادب پر رائے
‘ زاہد علی خاں اثر کہتے ہیں کہ اردو زبان اور ادب عصر حاضر ِ میں زوال پذیر تو ہے ،لیکن اس کا مستقبل نوجوان نسل کے ہاتھوں میں ہے جبکہ بزرگوں کی راہنمائی وقت کی اہم ضرورت ہے ،تب جاکر یہ میراث محفوظ رہ سکتی ہے ۔ان کا کہناتھا کہ 60،70اور80کی دہائی میں مشاعرے سورج طلوع ہونے کیساتھ شروع ہوتے تھے اور نہ صرف غروب آفتاب تک بلکہ رات دیر گئے جاری رہتے تھے ۔انہوں نے میں نہ صرف شعرا ءانتہائی دلچسپی اور بلا لالچ کیساتھ شرکت کرتے تھے بلکہ شعر سننے والے بڑے ا ضطراب کیساتھ شریک ِ محفل ہوا کرتے تھے ،لیکن آج اردو ادب کی تہذیب اور قدریں کم ہوگئیں ۔ان کا کہناتھا ’ مشاعرہ نو ٹنکی نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ سماج ،ادب اور تہذیب کا آئینہ دار ہیں ‘۔انہوں نے نوجوان نسل کو پیغام دیتے ہو ئے کہا ’ شعر وشاعری کیساتھ دلچسپی رکھیں ،لیکن شعر تُک بندی نہیں بلکہ با معنیٰ ہونا چاہیے ‘۔

مستقل سکونت اور خانوادے
زاہد علی خاں اثر اس وقت نوراپارٹمنٹ ،دوسری گلی جوہری فارم جامعہ نگر نئی دہلی میں مستقل سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں ۔زاہد علی خان اثر کے دادا مرحوم عبدالعلی خاں صاحب ،شعر گوئی کا مزاج رکھتے تھے ۔اس کے علاوہ چچا جناب شاہد علی خاں صاحب ،جو فی الوقت متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں ، شعر گوئی کی طرف مائل ہیں ۔زاہد علی خاں اثر کے فر زند ۔ارجمند علی خاں بھی آواز کی دنیا سے وابستہ ہیں ۔زاہد علی خاں اثر کو کشمیر سے بے انتہامحبت ہے ،اس لئے وہ ہر برس کشمیر کا رخ کرتے ہیں ۔انہوں نے کشمیر کی فطری خوبصورتی کو بھی شاعری میں قید کیا ہے ۔
(قہر کیوں ہے خد ا کی بستی میں ۔۔کون پوچھے یہ نا خداﺅں سے )

Leave a Reply

Your email address will not be published.