ماہ ِ جون2023یعنی رواں برس کا چھٹا ماہ ،کہنے کا مقصد یہ ہے کہ رواں سال کے چھ مہینے گزر جانے کو ہے اور وادی کشمیر میں موسم گرما نے اب اپنی پکڑ بھی مضبوط کرلی ہے ۔عمو ماً موسم گرما میں برقی رو کی سپلائی میں بہتری نظر آتی ہے ،لیکن کشمیر وادی میں برقی کی سپلائی کا حال چلہ کلان جیسا ہی ہے ۔یعنی بجلی کب آئے گی اور کب جائے گی ؟یہ روایت ابھی بھی برقرار ہے ۔
بنیادی ڈھانچے میں توسیع ،نئے ریسونگ اور گرڈ اسٹیشنز تعمیر کئے جاچکے ہیں، تاکہ صارفین کو بلا خلل بجلی سپلائی فراہم کی جاسکے ۔ترسیلی نظام کو بہتر کرنے کی کوششیں کی جارہی ہےں ۔ڈیجیٹل میٹرس کی جگہ اب آہستہ آہستہ سمارٹ میٹر لے رہے ہیں ۔یہ عمل جموں وکشمیر کے گرمائی صدر مقام سرینگر کیساتھ ساتھ مختلف قصبوں میں بھی جاری ہے ۔دعویٰ کیا جارہا ہے صارفین کو24گھنٹے بجلی فراہم کی جائے گی،لیکن زمینی صورت ِ حال دعوﺅں اور وعدوں کے بر عکس بالکل مختلف ہے ۔
شہر سرینگر کو سمارٹ سٹی منصوبے کے دائرے میں لایا گیا ہے ۔نئی اسٹریٹ لائٹس نصب کی گئی ہیں ،نئے تفریحی مقامات کو منظر ِ عام پر لایا گیا ہے،ریور فرنٹ اس منصوبے کا ایک حصہ ہے ۔اب شہریوں کیساتھ ساتھ گاﺅں اور قصبوں سے بھی لوگ خاص طور پور اتوار کو ریور فرنٹ پر آ کر فرصت کے چندلمحات گزار نے کے لئے رخ کرتے ہیں ۔تاہم اب ریور فرنٹ پر شام گزار نے کے لمحات مایوس کن ثابت ہورہے ہیں ،کیوں کہ یہاں چراغوں میں روشنی نہیں یعنی یہاں نصب دلکش اور پُرکشش لائٹس ”آن“ نہیں بلکہ ”آف “رہتی ہے ،جو وادی کشمیر میں بجلی سپلائی کی بحرانی صورت ِ حال کو عیاں کرتی ہے ۔موسم سرمامیں شیڈ ول کے مطابق بجلی آتی اور جاتی ہے اور لوگ بھی اس حوالے سے ذہنی طور پر تیار تھے ۔موسم گرما نے دستک تو دی ہے ،لیکن بجلی سپلائی نے بحرانی صورت ِ حال اختیار کی ہوئی ہے ۔ستم ظریفی یہ کہ گرما میں شیڈول کا کوئی علم نہیں ۔بجلی کبھی صبح ،کبھی دوپہر ،کبھی سہ پہر ،کبھی شام تو کبھی رات کو چلی جاتی ہے ۔ا
س بحرانی سپلائی نے پریشان کن صورت ِ حال اختیار کی ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق وادی کشمیر کو اس وقت 25سے30فیصد کمی کا سامنا ہے ۔محکمہ برقیات کے مطابق وادی کشمیر میں موسم گرما کے دوران 1450میگا واٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے ،تاہم اس وقت 1200میگا واٹ ہی بجلی دستیاب ہے اور اڑھائی سو میگا واٹ بجلی کی کمی کو کٹوتی کرکے پورا کیا جارہا ہے جبکہ یہ کٹوتی ناگزیر بن گئی ہے ۔محکمہ کا کہنا ہے کہ اخراجات اور آمدنی میں کافی تفاوت بھی ہے ۔
اس دعوے پر یقین توکرنا ہی پڑے گا کہ محکمہ سو فیصد سچ بول رہا ہے ،کیوں کہ موجودہ شفاف اور جوابدہ انتظامیہ میں جھوٹ بولنے اور محض کاغذی گھوڑے چلانے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ۔اگر موسم سرما کی طرح موسم گرما میں بھی بجلی کٹوتی ناگزیز ہے ،تو شیڈول جاری کرکے عام صارفین کو یہ جانکاری کیوں نہیں دی جارہی ہے کہ بجلی کب آئے گی اور کب جائے گی؟ ،تاکہ موسم سرما کی مانند موسم گرما میں بھی لوگ ذہنی طور تیار ہوجائیں کہ فی الحال 24گھنٹے تو دور15گھنٹے بھی بجلی سپلائی فراہم نہیں ہوسکتی ہے ۔گوکہ جموں وکشمیر ہر روز اور ہر پل ترقی کی نئی نئی منازل طے کررہا ہے ،لیکن بجلی کے میدان میں جموں وکشمیر اب بھی صدیوں پرانی روایت پر قائم ہے ۔اب حالات کب اور کیسے بدلیں گے؟اس کا جواب فی الوقت ملنا کافی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔
وادی کشمیر آبی وسائل سے مالا مال ہے ،اس وقت دریاﺅں اور ندی نالوں میں بھی سطح پر بجلی کی پیدا وار بڑھانے کے لئے مفید اور گنجائش کے عین مطابق ہے ،لیکن پیداوار بڑھانے کی طرف توجہ کم اور خرچ کرنے پر زیادہ ہے ۔برقی رو کے حوالے سے سوچ بھی بدل رہی ہے ،اب لوگ شمسی توانائی کی طرف جارہے ہیں اور آنے والے وقت میں غالباً شمسی توانائی ہی مستقبل ہو گی ۔سرکاری سطح پر اس ضمن میں مختلف فائدہ مند اسکیمیں مرتب کی گئی ہیں ،لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ عام لوگ ان اسکیموں کے بارے میں زیادہ جانکاری نہیں رکھتے ۔عام صارفین ان اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کے خواہشمند ہیں ،لیکن راستہ دکھانے والا کوئی نہیں ۔ضروری ہے کہ شمسی توانائی کے بارے میں حکومت کی جانب سے مرتب کی گئیں اسکیموں کے بارے میں عام لوگوں کو علاقائی سطح پر جانکاری دی جائے اور اس حوالے سے بیداری مہم چلائی جائے ،تاکہ بجلی کا یہ بحران ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قصہ پارینہ بن جائے ۔معاملہ توجہ طلب ہے!گر آپ چاہیںتو کیا نہیں ہو گا ۔





