عبد الغنی عاجز کشمیری : فلسفہ روحانیت کے صوفی شاعر

عبد الغنی عاجز کشمیری : فلسفہ روحانیت کے صوفی شاعر

شوکت ساحل

سرینگر: جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے لرو کاکا پورہ گاﺅں سے تعلق رکھنے والے ’عبد الغنی عاجز کشمیر ی‘ تقاضاروحانیت کے ایک روحانی شاعر ہیں ،جن کے کلام میں فلسفہ رو حانیت اور صوفیت کا پیغام پوشیدہ ہے ۔مروجہ تعلیم کے معلم عبدالغنی کے آباو اجداد کا تعلق شہر خاص سرینگر کے حبہ کدل علاقے سے ہے ۔

ایشین میل ملٹی میڈیا کے ہفتہ وار پروگرام ”بزم ِ عرفان “ میں معروف براڈ کاسٹر عبد الاحد فرہاد سے خصوصی گفتگو کے دوران عبد الغنی عاجز کشمیر ی کہتے ہیں کہ اُنکے والد کا تعلق شہر خاص کے حبہ کدل سرینگر سے ہے اور وہ گھر داماد کی حیثیت سے کاکا پورہ پلوامہ میں رہائش پذیر ہوئے ۔انہوں نے کہا ’ ہم والدہ کی وراثت پر یہاں مقیم ہیں ،تاہم ہماری جڑ سرینگر سے ہی ہے ‘۔

روحانیت اور صوفیت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے عبد الغنی کہتے ہیں کہ اُن کے چاچا اُنہیں اپنا بیٹا اور وارث سمجھتے تھے ،کیوں کہ اُن کے چاچا کا کوئی بیٹا نہیں تھا بلکہ ایک بیٹی تھی جبکہ اُن کے چاچا کا تعلق شالیمار سرینگر سے تھا ۔صوفی شاعر عبد الغنی عاجز کشمیری نے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا ’ میرے چاچا مجھ سے بہت محبت کرتے تھے اور شفقت رکھتے تھے ،جسکی وجہ سے اُن کے یہاں آنا جانا زیادہ رہتا تھا ‘

عبد الغنی عاجز کشمیر نے ابتدائی تعلیم کاکا پورہ کے سرکاری اسکول سے حاصل کی اور میٹرک کے بعد گریجویشن مکمل کرنے کے لئے ایس پی کالج سرینگر میں داخلہ لیا ،انڈر گریجویٹ ہی تھے کہ محکمہ تعلیم میں بحیثیت استاد تعینات ہوئے اور کشمیر کے مستقبل کو سنوار نے میں مصروف ہوئے ،تاہم صوفیت اور روحانیت سے دور نہ ہوسکے ۔

خصوصی گفتگو کے دوران ’عبد الغنی عاجز کشمیر ی نے کہا کہ موسم خزاں تھا اور وہ عہد ِ جوانی میں تھے ،چاچا کے یہاں شالیمار سرینگر گئے ہوئے تھے ،جہاں وادی کشمیر کے بلند پایہ ولی کامل حضرت میرک شاہ کاشانی ؒ کی روحانیت نے اُنہیں فلسفہ اور تقاضا روحانیت کو سمجھنے اور احساس ِ عاجز اپنے اندر پیدا کرنے کی ترغیب دی ۔اس لئے انہوں نے اپنے نام کیساتھ عاجز کشمیری کا تخلص جو ڑ دیا ۔

ایک دلچسپ اور حیران کن واقعہ سناتے ہوئے عبد الغنی کہتے ہیں’ خواب میں اپنے چاچا کے یہاں تھا کہ نماز فجر ادا کرنی تھی ، کنکریٹ مسجد میں سات افراد با جماعت نماز ادا کے لئے آئے ہوئے تھے،موزن نے فجر نماز کے لئے تکبیر دینا شروع کردیا کہ ایک شخص کو آتا ہوا دیکھ کر میں نے نماز فجر ادا کرنے سے روک دیا اور کہا کہ کوئی شخص آرہا ہے ،میںجوانی کے جوش میں تھا آگے نکالا ،دیکھا کہ ایک بزرگ ہیں ،جن کے ہاتھ میں چھڑ ی تھی ،میں اُس بزرگ کے قریب پہنچا تو انہوں نے میری طرف وہ چھڑی پھینک دی ،جب میں نے وہ چھڑی ہاتھ میں اٹھا ئی تو قلم میں تبدیل دیکھ کر حیران ہوگیا ۔‘

ان کا کہناتھا ’ انتہائی اشتیاق میں اس خواب کی تعبیر جاننے کے لئے میں شالیمار سرینگر گیا اور کشمیر کے بلند پایہ ولی کامل حضرت میرک شاہ کاشانیؒ کے آستانہ عالیہ کے سجادہ نشین کو خواب سنایا ،جنہوں نے خواب کی تعبیر تبسم کیساتھ یہ کردی کہ علمدار کشمیر ؒ نے آپ کو قلم سونپ د یا ہے ‘۔عبد الغنی مزید کہتے ہیں ”جنوبی ضلع شوپیان میں1970-71 میں مادری زبان پر ایک محفل مشاعرہ کا اہتمام ہوا تھا ، جس میں انہوں نے پہلی مرتبہ شرکت کی اور یہاں حوصلہ افزائی ملی ،جس نے اُنہیں صوفی شاعری کی طرف راغب کیا،جب سے لیکر اب تک یہ سلسلہ آبشارکی مانند جاری ہے ۔“

فلسفہ روحانیت کے کشمیری شاعر، عبد الغنی عاجز کشمیری کے سات شاعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ،جن میں ”سر ہلی ٹائری¿۔۔۔سو در ِ تار ۔۔۔ اوردوہ لوگ در قابل ذکر ہے ۔تاہم عبد الغنی کے بہت سے اشعار اب بھی منظر عام نہیں آئے ہیں ،جن کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے ،تاکہ نوجوان نسل بھی فلسفہ روحانیت سے مستفید ہوسکے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.