شہر سرینگر کو سماٹ سٹی بنانے سے واقعی رونق سی چھاگئی ہے ۔سڑکوں کی کشادگی،لینوں اور ڈرینوں کی مرمت،سائیکل سواروں کے لئے الگ راستہ،پیدل چلنے والوں کے لئے رنگ برنگی ٹائیلوں سے سجی پٹری۔جہلم کے کناروں کی خوبصورتی انسان کی روح کو تازگی بخشتی ہے۔
ویسے اس بات میں کوئی شک کی گنجا ئش نہیں ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔مگر شہر میں آوارہ کتوں کے جھنڈ دیکھنے کو مل رہے ہیں اور تو اور جب کوئی سنجیدہ فکر انسان سنگر مال کمپلیکس مولانا آزاد روڑ کے قریب چوراہے پر پہنچ جاتا ہے ،تو اُسے لگتا ہے کہ وہ کسی جنگل میں پہنچ گیا ہے۔یہاں سڑک کے دو حصوں کے درمیان لگی ہوئی فنسنگ دیکھ کر انسان کے دماغ کو بریک لگ جاتی ہے، آخر سماٹ سٹی میں جانوروں کا یہ پنجرہ کیوں رکھا گیا ہے۔
مرحوم مفتی محمد سعید نے اس پنیری کو اُس دور میں لگایا تھا جب وہ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجماں تھے۔ شہر میں سب کچھ بدلہ بدلہ سا نظر آرہا ہے لیکن یہ جانورں کا پنجرہ کوئی اور داستان سُنا رہا ہے ۔یہ پنجرہ سماٹ سٹی کے چہرے پر بدنماں داغ کی مانند ہے ،اس داغ کو کیوں نہیں مٹایا جارہا ہے۔میونسپل حکام ہی جانتے ہونگے۔لیکن ایک بات صاف ہے کہ انسانوں کی بستی میں جانوروںکا پنجرہ اچھا نہیں لگتا ہے۔