جموں کشمیر میں صاف و شفاف انتظامیہ چلانے اور تعمیر و ترقی کو ہر محاذ پر آگے لے جانے میں ہم کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گے ۔جموں کشمیر انتظامیہ کو ہائی جیک کرنے والے لوگوں کا دور اب ختم ہو چکا ہے۔ان خیالات کا اظہار جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے گزشتہ روز ضلع اننت ناگ میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب کے دوران کیا ۔انہوں نے کہا کہ جی ٹونٹی کے منعقد ہونے سے وادی کی دستکاری صنعت کو فروغ ملے گا اور آنے والے وقت کے دوران یہاں تیار ہونے والی مصنوعات کی مانگ عالمی بازاروں میں بڑھنے کی اُمید ہے۔
لیفٹنٹ گورنر کا یہ بیان سیاسی اور عوامی حلقوں میں اس لئے اہم مانا جاتا ہے کیونکہ جموں کشمیر کے عوام ان باتوں سے بخوبی واقف ہیں کہ جموں کشمیر کی تباہی و بربادی کے لئے وہی لوگ ذمہ دار ہیں، جو آج اس کی تباہی پر واویلا کر رہے ہیں۔انہوں نے جان بوجھ کر اپنی کرسی اور اقتدار کی لالچ میں مبتلا ہو کرعام لوگوں کو نہ صرف تعمیر ترقی سے دور رکھا تھا بلکہ ان ہی کی غلطیوں کی وجہ سے یہاں کے نوجوانوں میں دشمنی کی آگ نمودار ہو گئی۔ان کی لاپروہی اور ناانصافی کی بدولت ہزاروں کی تعداد میں لوگ در غور چلے گئے اور ہزاروں کی تعداد میںنوجوان جیلوں کی زینت بن گئے۔ایل جی موصوف کا بیان سو فیصدصحیح ہے کہ چند سیاستدانوں اور بیوروکریٹوں نے جموں کشمیر کو اپنا ذاتی جاگیر سمجھ کر نہ صرف اربوں کھربوں کی دولت اور جاگیر جمع کی ہے، بلکہ انہوں نے غریب اور کمزور طبقوں سے وابستہ قابل اور ذہین بچوں کے مستقبل کو تاریکیوں میں دھکیل دیا۔میڈیکل ،انجینئرنگ اور مختلف ملازمت کی سیٹوں کا بندر بانٹ کر کے اپنے ا ور سرمایہ داروں کے بچوں کو ہر محاذ پر آگے بڑھایا۔اب چونکہ گزشتہ لگ بھگ پانچ برسوں میں سب کچھ بدلتا ہوا نظر آرہا ہے لیکن ابھی بھی مختلف لوگوں کا اثر و رسوخ قائم ودائم ہے۔انہیں دہلی کا آشیر واد سر پر رہا اور آج بھی یہ گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر اپنا لوہا منوانے میں کسی نہ کسی طرح کامیاب ہو رہے ہیں۔سرکاری زمین ہڑپنے کی بات ہو یا پھر بھرتی مُہم کا معاملہ ہو ،ایسے سیاستدانوں اور انتظامی افسران کا ہاتھ درپردہ ضرور رہتا ہے۔
موجودہ مرکزی سرکار بھی ان باتوں سے بخوبی واقف ہے کہ کن سیاسی لوگوں اور انتظامی افسران کا ماضی میں کیا رول رہا ہے، اس کے باوجود بھی ان ہی لوگوں کی سرپرستی ہو رہی ہے۔جہاں تک گزشتہ پانچ برسوں کا تعلق ہے جموں کشمیر میں تعمیرو ترقی کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے بچے مختلف شعبوں میں آگے بڑھ رہے ہیں لیکن جہاں تک صاف و شفاف انتظامیہ کا تعلق ہے اس کے لئے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جن ملکوں اور ریاستوں میںبڑے پیمانے پر تبدیلیاں آئی ہیں، وہاں کی تاریخ گواہ ہے کہ وہاں تبدیلیاں لانے والوں نے اپنا کلیجہ ہاتھ میں رکھ کر اپنے مشکلات کی پرواہ نہ کیا بلکہ صرف عام لوگوں کا خیال رکھ کر ہر محاذ پر تبدیلی لاکر ایک بہترین معاشرہ اور انتظامی نظام قائم کیا۔اگر واقعی ایل جی موصوف کو کسی قسم کی رکاوٹ سامنے نہیں ہے پھر اُنہیں ایسے اقدامات بغیر کسی دھیری کے اٹُھانے ہونگے جن سے وہ افراد عوام کے سامنے بے نقاب ہو ں، جنہوں نے جموں کشمیر کی انتظامیہ کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ کر عام لوگوں کے ساتھ نا انصافی کی تھی یا کر رہے ہیں ۔





