سری نگر، 16 مئی : وادی کشمیر کے شہرہ آفاق جھیل ڈل میں حال ہی میں دریافت کی جانے والی ‘الیگیٹر گار’ مچھلی جہاں حکام اور ماہرین کے لئے فکر مندی کا باعث اور تحقیق طلب معاملہ بن گیا ہے وہیں ماہرین یہ خدشات بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ اس مخصوص مچھلی کے موجودگی سے مقامی مچھلیوں کے وجود کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
یہ مچھلی جموں وکشمیر لیک کنزرویشن اینڈ منیجمنٹ اتھارٹی کو جھیل ڈل کی صفائی کرنے کے دوران ملی تھی۔
اس ‘الیگیٹر گار’ مچھلی کا تعلق شمالی امریکہ سے ہے اور بھارت کے بعض حصوں میں بھی اس کو پایا جاتا ہے تاہم کشمیر میں مگر مچھ نما اور تیز دانتوں والی یہ مچھلی پہلی بار دیکھی گئی جس کی وجہس یہاں جہاں عام لوگ ورطہ حیرت میں ہیں وہیں ماہرین بھی فکر مند نظر آرہے ہیں۔
شیر کشمیر زرعی یونیورسٹی شالیمار کے شعبہ فشریز کے ایک ماہر فراز احمد نے یو این آئی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ اس مچھلی کی موجودگی ہماری آبی نظام (اکیوٹک سسٹم) کے لئے ضرر رساں ہے تاہم یہ بات تحقیق طلب ہے کہ یہ مچھلی یہاں کیسے پہنچی۔
انہوں نے کہا کہ مقامی مچھلیوں کو بھی زیادہ خطرہ تو نہیں لیکن اگر اس کو غذا نہ ملا تو یہ ان کو کھا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا: ‘ہماری مقامی مچھلیوں کا سائز کم ہوتا ہے اور بازار میں عام طور پر بیچی جانے والی مچھلیوں کا وزن زیادہ سے زیادہ دو یا تین کلو ہوتا ہے جبکہ اس مخصوص مچھلی کا وزن بھی زیادہ ہوتا ہے اور سائز بھی اور اس کے علاوہ یہ مچھلی جلدی بڑی بھی ہوجاتی ہے’۔
موصوف ماہر نے کہا کہ مقامی مچھلیاں گھاس پھوس وغیرہ کھاتی ہیں مگر یہ مچھلی باقی مچھلیوں کو بھی کھاتی ہے اور اگر کھانے کو کوئی پرندہ بھی مل جائے تو اس کو بھی اپنا نوالہ بنا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس مچھلی کا اثر باقی مقامی مچھلیوں پر ضرور اثر پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا: ‘یہ الیگیٹر گار چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو کھاتی ہے وہ اس کو دستیاب ہیں لیکن اگر وہ نہ ملیں تو وہ پرندوں کو بھی اپنا غذا بنا سکتی ہے’۔
فراز احمد نے کہا کہ یہ بات تحقیق طلب اور ایک لمحہ فکریہ ہے کہ یہ مچھلی یہاں کس طرح آئی۔
انہوں نے کہا کہ اس مچھلی کے متعلق تحقیق ہو رہی ہے تاہم یہ ہمارے آبی نظام (اکیوٹک سسٹم) کے لئے ضرر رساں ہی ہے۔
انہوں نے کہا: ‘یہ مچھلی یہاں باقی جھیلوں میں بھی موجود ہوسکتی ہے اور ایک سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے تاہم یہ معاملہ تحقیق طلب ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری ٹیم بھی جائے موقع پر بھی گئی اور یہ بات پکی ہے کہ یہ ‘الیگیٹر گار’ مچھلی ہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بھی یہاں مچھلیوں کے کچھ قسم ایسے ہیں جو باہر سے آئے ہیں اور کچھ ایسے قسم بھی ہیں جن کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ وہ یہاں کیسی آئیں۔
انہوں نے کہا کہ اس مچھلی کے پائے جانے کے متعلق پریشان ہونے یا گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کی مچھلی کا سائز 8 فٹ تک بڑھ سکتا ہے تاہم یہ عام طور پر انسانوں پر حملہ آور نہیں ہوتی ہیں لیکن دوسری مچھلیوں کو خوراک کے لئے اپنا نوالہ بنا سکتی ہیں۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس مچھلی کو کسی غیر مقامی سیاح یا کسی اکیورم مالک نے جھیل ڈل میں پھینک دیا ہوگا تاہم یہ ابھی محض قیاس آرائیاں ہی ہیں۔
یو این آئی





