تین مئی کا دن پوری دنیا میں آزادی صحافت کے طور منایا جارہا ہے۔اس حوالے سے اس ملک میں بھی مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔دنیا کے تمام حکمران اس بات پر متفق ہیں کہ جس ملک میں اچھے اور پیشہ ور صحافی ہوں وہ ملک ہر محاذ پر آگے کی اور بڑھتا جارہا ہے۔اےک صحافی ملک و قوم کا عظیم سرمایہ ہوتا ہے وہ عوام کی دن رات ترجمانی بنا کسی تنخواہ کے کرتا رہتا ہے۔
غالباً اسی لئے قوم و ملت کا ہر انسان اپنے ارد گرد موجود صحافی کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتا ہے اور اُس کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ ملک کی تعمیر و ترقی اور عوام کی خوشحالی میں ایک پیشہ ور صحافی کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے، وہ ہمیشہ عام لوگوں کے مسائل و مشکلات وقت کے حکمرانوں تک پہنچاتا رہتا ہے ۔حکمرانوں کی خامیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کرتا رہتا ہے اور اُن کا ازالہ کس طرح ہو ، اس پر بھی اپنی آرا ءپیش کرتا رہتا ہے۔
بدلتی دُنیا میں صحافت کے پیشے میں بھی بہت زیادہ بدلاﺅآچکا ہے ۔پرنٹ میڈےا کی جگہ الیکٹرانک اور شوشل میڈیا نے لی ہے۔لوگوں کے پاس بھی اب اتنا وقت نہیں رہا ہے کہ وہ پُرانے ایام کی طرح اخبار کے صفحات پر شائع خبروں ،مراسلوں،اداریہ یا مضامین پڑھیں۔جہاں تک شوشل میڈیا کا تعلق ہے ،اس پر تو کسی کا کوئی کنٹرول نہیں ہے نہ ہی اس کے لئے پیشہ ور ہونا لازمی ہے۔
آج کے دور میں ہر نکڑ اور ہر چوراہے پر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہاتھ میں مائک اور موبائل لے کر خود کو لوگوں کے سامنے صحافی پیش کرتے ہیںاور بلیک میلنگ کرکے پیسہ وصول کرتے ہیں، اس طرح عوامی حلقوں میں صحافت کے عظیم و مقدس پیشے کو بدنام کرتے ہیں، جہاں تک پرنٹ میڈیا کا تعلق ہے، اس کی اپنی ایک الگ اہمیت اور حیثیت ہے جس کو کوئی ختم نہیں کر سکتا ہے۔دُنیا میں جو بھی نامور اور پیشہ ور صحافی گذرے ہیں یا ابھی بھی ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں ، وہ غربت و افلاس کی زندگی گذارتے ہیں اور عوامی حلقوں میں انہیں عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے، اُن کی وابستگی پرنٹ میڈیا سے ہی تھی۔کیونکہ اس طرح کے صحافی اس پیشہ کو تجارت نہیں بلکہ عبادت تصور کرتے ہیں۔جہاں تک موجودہ ترقی یافتہ زمانے کا تعلق ہے ،آج صحافت ایک صنعت مانی جاتی ہے، ان حالات میں کس طرح آج کے دور میں ایک پیشہ ور صحافی خود کو زندہ رکھ سکتا ہے اور کس طرح وہ ملک و قوم کی خدمت کرسکتا ہے ،جو کہ اس کا حقیقی مدعا و مقصد ہوتا ہے۔
ایک بہت بڑا سوال ہے،وقت کے حکمرانوں کو اس حوالے سے نہایت ہی سنجیدگی اور متانت سے سوچنا چاہئے اور گہرائی کے ساتھ دور رس پالیسی اپنانی چاہئے جس سے پیشہ ورانہ صحافت زندہ رہ سکے اور عام لوگوں کی فلاح و بہبود ،یکسان حقوق،تعمیر و ترقی اور خوشحالی کےلئے ایمانداری اور آزادی سے یہ پیشہ ور صحافی کام کرسکےں۔کیونکہ صاف و شفاف اور ایماندار صحافی ہی عوام اور حکومت کے درمیان پُل قائم کر سکتاہے ۔عوامی مسائل حکمرانوں تک پہنچا سکتا ہے اور حکومتی کام اور پیغام عام لوگوں تک بہ آسانی پیش کرسکتا ہے۔لہٰذا ملک کے حکمرانوں کو چاہئے وہ اس ملک میں زرد صحافت کا خاتمہ کر کے اچھی اور صحت مند صحافت کو آگے بڑھنے کا موقعہ فراہم کرے اور ایسے اداروں کو ہر ممکن تعاون اور مدد کریں جو پیشہ ور صحافت کو فروغ دے رہے ہیں۔





