وادی میں مہاجر پنڈت ملازمین کی سہولیات کے لئے گاندربل،بانڈی پورہ ،شوپیان اور بارہمولہ میں۶۷۵ فلیٹوں کا گذشتہ روز جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے باضابطہ طور افتتاح کیا۔یہ ایک خوش آئندہ بات ہے کہ ۰۹۹۱ میں اپنے آبائی وطن چھوڑ کر ملک کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے کشمیری پنڈت دھیرے دھیرے واپس آرہے ہیں ۔اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہوگا کہ کشمیر وادی پنڈتوں کی غیر موجودگی میں ”بنا سنگار دُلہن“ ہے ۔
وادی کشمیر دُنیا کی وہ واحد جگہ ہے، جہاں ہندو مسلم ایک ہی گھر میںشادی بیاہ اور تہواروں کے موقعے پر ایک ہی تھالی میں کھاتے پیتے تھے۔پنڈت کے گھر میں شادی ہوتی تھی تو انتظامات مسلم برادری کے لوگ کرتے تھے اور مسلم گھرانے میں غم و خوشی کے موقعے پر پنڈت برادری کے لوگ کھڑا رہتے تھے۔ملک کی مختلف ریاستوں میں ابھی بھی کچھ جگہیں ایسی ہیں، جہاں ایک ساتھ کھانے پینے کی بات تو دور ،ہم مذہب لوگ ایک دوسری سے ہاتھ ملانا گنوارا نہیں کرتے ۔جہاں تک کشمیر وادی کا تعلق ہے یہ جگہ مختلف مذاہب کے اعتبار سے انتہائی اہم جگہ مانی جاتی ہے۔
اس وادی میں جہاں لل عارفہ اور شیخ نوالدین ولیؒ نے الگ الگ مذاہب ہونے کے باوجود ماں بیٹھے کا درجہ قبول کیا تھا، وہیںاس وادی میں موجود بلند پایہ ولی کامل حضرت میر بابا حیدر تولہ مولہؒ کے سامنے ماتا کھیر بھونی روز حاضری دیکر اپنی عقیدت کا اظہار کرتی تھیں۔غرض مذہبی رواداری اور بھائی چارے کے اعتبار سے وادی کشمیر کی ایک الگ اور منفرد پہچان ہے جس کا مقابہ دُنیا میں کوئی نہیں کرسکتا۔بہر حال ہم بات کررہے ہیں اُن کشمیر ی پنڈتوں کی جن کی باز آباد کاری اور گھر واپسی کے لئے موجودہ مرکزی سرکار نہ صرف وعدہ بند ہے بلکہ عملی طور پر اس حوالے سے اقدامات بھی اُٹھائے ہیں۔اس سلسلے میں سرکار اور انتظامیہ تب تک پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکتی ہے جب تک نہ دونوںطرف کے عوام ایک دوسرے پر پھر سے وہ بھروسہ اور اعتماد قائم نہیں کرپائیں گے جس کو دہائےوں قبل دشمنوں نے ایک منصوبہ بند سازش کے تحت توڑنے کی کوشش کی تھی اور لاکھوں کشمیری پنڈتوں کو اپناگھربار ،زمین جائےداد اور دوست وہمسایہ چھوڑنے پر مجبور کیاتھا ۔
سرکار نے اگر چہ ان پنڈتوں کی باز آباد کاری اور کشمیر واپس آنے کے لئے ایک قدم تو اُٹھایا ہے لیکن انتاہی کافی نہیں ہے بلکہ ان پنڈتوں کو اپنے اپنے آبائی علاقوں میں اپنے مسلمان بھایﺅں کے ساتھ حسب سابقہ رہنے کا ماحول تیار کرنا چاہئے تاکہ پھر ایک بار یہ دونوں ایک دوسرے کے غم و خوشی میں بغیر کسی خوف و ڈر کے شامل ہو سکیں ،اس کے لئے ان پنڈتوں کو بھی جُرات مندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور اپنے بچوں کو عیش و آرام کی زندگی چھوڑ کر وادی آنے کے لئے آمادہ کرناچاہئے تاکہ پھر سے امن و خوشی اور بھائی چارے کی بہاریں لوٹ آئیں جس پر ملک کے عوام رشک کرتے تھے۔





