وسطی کشمیر کا بوگام گائوں: سبزیوں کی پیداوار کے لئے ‘منی پنجاب’ کے نام سے مشہور

وسطی کشمیر کا بوگام گائوں: سبزیوں کی پیداوار کے لئے ‘منی پنجاب’ کے نام سے مشہور

سری نگر،27 اپریل: وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے چاڈورہ علاقے میں ایک گائوں کی زرعی اراضی پر تاحد نظر مختلف قسموں کی سبزیوں کے سر سبز و شاداب باغیچے نظر آ رہے ہیں جن میں مرد و زن اور مقامی و غیر مقامی مزدوروں کو کام میں انتہائی مشغول دیکھا جا رہا ہے۔
بوگام کے نام سے موسوم سے گائوں کو بھاری مقدار اور معیاری سبزیاں پیدا کرنے کے لئے ‘منی پنجاب’ کے نام سے یاد کیا جا تا ہے۔
اس گائوں کے زمیندار اراضی پر آمدنی کو بڑھانے کے لئے میوہ باغ لگانے کے بجائے مختلف قسموں کی سبزیاں اگانے کو ہی ترجیح دے رہیں اور اب یہ رجحان ملحقہ علاقوں میں بھی پھیل رہا ہے۔
فیاض احمد نامی ایک مقامی زمیندار نے یو این آئی کو بتایا کہ ہمارے گائوں میں تمام کسان سبزیاں اگا کر ہی نہ صرف اپنے عیال کو پالتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی روز گار فراہم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے گائوں کے زمیندار سال بھر اسی کام کے ساتھ مشغول رہتے ہیں۔
شوکت احمد نامی ایک زمیندار نے کہا: ‘ہم یہاں مختلف قسموں کی سبزیاں اگا رہے ہیں جن کو ہم جموں بھی بھیجتے ہیں اور یہاں کی منڈیوں میں بھی ہمارے گائوں کی سبزیاں جاتی ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ہم سال بھر اس کام کے ساتھ مصروف رہتے ہیں کھیتوں میں مرد و زن کام کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ‘مقامی و غیر مقامی مزدور بھی یہاں کھیتوں میں کام کرتے رہتے ہیں ہر زمیندار کے پاس کم سے کم 8 مزدور مارچ سے نومبر تک کام کرتے ہیں’۔
موصوف زمیندار نے کہا کہ ہم خود بھی اچھی خاصی کمائی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی روز گار فراہم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقے کی سبزیاں معیاری سبزیوں میں شمار کی جاتی ہیں اور بہتر سبزیاں اگانے میں ہم لوگ بھی دن رات ایک کرتے ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ متعلقہ حکام ہماری بھر پور مدد نہیں کر رہے ہیں۔
ایک اور زمیندار نے کہا کہ یہاں لوگ باغبانی کے بجائے سبزیاں اگا کر روزی روٹی کمانے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا: ‘میں گذشتہ بیس برسوں سے اپنی اراضی پر مختلف قسموں کی سبزیاں اگا کر اپنے عیال کو بھی اچھی طرح سے پالتا ہوں اور کئی لوگوں کو بھی کمانے کے لئے کام دیتا ہوں”۔
ان کا کہنا تھا: ‘میں اسی کام سے اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ کرتا ہوں اور ان کی دیگر ضررویات بھی اچھی طرح سے پوری کرتا ہوں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہمارے پاس زرعی اراضی ہے محنت کرنے کی ضرورت ہے ہمیں روزگار کی تلاش کے لئے در در کی ٹھو کریں کھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہم دوسروں کو روزگار فراہم کرنے کی طاقت رکھتے ہیں’۔
موصوف کسان نے کہا کہ ہم جو سبزیاں تیار کرتے ہیں وہ معیاری اور ذائقہ دار ہیں لہذا ان کی مانگ بھی زیادہ رہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب ہمارے ہمسایہ علاقوں نے بھی اراضی پر میوہ باغ لگانے کے بجائے سبزیاں اگانا شروع کی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں تعلیم یافتہ نوجوان بھی کھیتوں میں کام کرکے اپنا روزگار کما رہے ہیں بلکہ کئی نوجوان حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ سبزیاں اگانے میں اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ہماری مدد کرے گی تو یہ شعبہ مزید مستحکم ہوگا جس سے بے روزگاری کے خاتمے میں کافی حد تک مدد مل سکتی ہے۔
محمد امین نامی ایک بیوپاری نے کہا کہ اس کاروبار کے ساتھ بھی کئی لوگوں کی روزی روٹی وابستہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ سبزیاں ہر گھر کی ضرورت ہیں خواہ وہ امیر گھرانہ یا غریب خاندان ہے لہذا یہ شعبہ بڑھنے والا ہی ہے یہ کبھی زوال کا شکار ہو ہی نہیں سکتا ہے۔

یو این آئی

Leave a Reply

Your email address will not be published.