وادی کشمیر جسے عرف عام میں پیر وار کے نام سے جانا جاتا ہے میں امن وامان ،مذہبی بھائی چارے ،رواداری ،شرافت اور سادگی دیکھ کر دنیا بھر کے لوگ یہاں آنے کو ترجیح دیتے تھے کیونکہ یہاں ولیوں ،صوفیوں اور بزرگان دین نے عوام کو ایسی ہی تعلیمات دیکر سچے انسان بننے کی ترغیب دی تھی ۔زمانے کی تیز رفتاری نے جہاں سیاسی ،سماجی اور اقتصادی بدلاﺅکے نئے گُر سکھائے وہاں یہ بات بھی عیاں ہے کہ وادی کا یہ سادہ لوح انسان بھی زمانے کی اس تیز ترترقی میں بدلتا گیا اور وہ صرف مال وجائیداد کے پیچھے دوڑتا گیا ۔لالچ وحرص نے یہاں کے شریف اور سادہ لوح عوام کی ان تعلیمات پر پانی پھیر دیا ہے، جو تعلیمات ہمیں ورثے میں ملی تھیں ۔یہاں کا ہر شخص صرف اور صرف دولت کا پجاری بن رہا ہے اس دولت کو حاصل کرنے کیلئے جتنے بھی غلط طریقے استعمال کرنے پڑتے ہیں، وہ ہر گز گریز نہیں کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کے عام آدمی کا سکھ چین چھن گیا ہے۔
نہ دن میں انسان کو قرار ہے نہ ہی رات میں آرام ۔ہر طرف لوٹ مار،قتل وغارت ،رشوت خوری،ذخیرہ اندوزی ،گراں فروشی ،بے ایمانی ،سیاسی وسماجی ناانصافی ،انسانی حقوق کی خلاف ورزی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔شراب وشباب اور دولت میں لوگ اس قدر مست ومگن ہو چکے ہیں کہ ہر گھر مغربی تہذیب کا گہوارہ بن چکا ہے ۔نہ ہی بزرگوں کی وہ تعلیم کہیں نظرآرہی ہے اور نہ ہی ہمیں اپنے اسلاف کی وہ سادگی اور شرافت کہیں نظر آرہی ہے جس کی بدولت ہم نے دنیا بھر میں نام کمایا تھا ۔دولت حاصل کرنے کی لالچ میں والد اپنے بچوں کا قتل کرتا ہے اور بچے دولت پر قبضہ جمانے کی غرض سے اپنے والدین کو نہیں بخشتا ہے سرکاری اہلکار بھی اب اپنی مرضی کا مالک بن گیا ہے وہ جب چاہے جو چاہے کر سکتا ہے کیونکہ چپراسی سے لیکر اعلیٰ افسران تک ،وزیر سے لیکر مشیر تک ہر ایک غلط طریقہ کار اپنا کر اپنا وقار ،عزت واحترام کھو چکا ہے ۔کوئی کسی کا غم خوار نہیں ہے کوئی کسی کا مددگار نہیں بن رہا ہے ۔
دولت کی لالچ میں اب لوگ تبدیلی مذہب سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں ۔سیاسی وغیر سیاسی تنظیموں کے نام پر لوگ کاروبار کرتے ہیں ۔تعلیم وتربیت کے نام پر لوٹ مچائی جاتی ہے درسگاہوں یتیم خانوں اور دار العلوموں کے نام پر لوگ دولت کما رہے ہیں ۔یہاں تک کہ انسانی لاشوں کا بھی کاروبار کیا جا رہا ہے ۔لوگوں کو تنظیموں اورفرقوں میں تقسیم درتقسیم کیا جا رہاہے ۔مسلکی اور مذہبی منافرت پھیلائی جارہی ہے جس کا واضح ثبوت ہمارے سامنے ہے ۔
گذشتہ 30برسوں کے نامساعد حالات کے دوران درجنوں مرتبہ مسلکی اورگروہی فسادات رونما ہوئے ۔جس دوران انسان ایک دوسرے کا خون بہانے سے بھی دریغ نہیںکرتا ہے۔مال وجائیداد کو نقصا ن پہنچایا جا رہا ہے ۔ان حالات پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے ۔عام لوگوں کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کو شرافت ،سادگی ،انسان دوستی اور آپسی بھائی چارے کا سرمایہ ورثے میں ملا ہے جس کی حفاظت کرنا ہر کشمیری کا فرض ہے اور جو لوگ اس قسم کی گھناﺅنی حرکتوں میں ملوث ہیں ان کو سرعام ننگا کرنا چاہیے تاکہ ہمارا ورثہ محفوظ رہ سکے ۔





