وادی میں زور دار بارشوں کی وجہ سے بازاروں کی رونق دھیمی پڑ چکی ہے۔عید سے ایک ہفتہ قبل بازاروں میں جو رونق ہوتی تھی ،وہ کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔گھر کے بڑے افراد اگر چہ خوش ہیں کہ اُن کے بچے گھروں میں رہ کر فضول خرچی سے بچ جا ئیں گے، تاہم بچے آج سے ہی دُعا مانگتے ہیں کہ عید سے قبل موسم خوشگوار ہو جائے اور دھوپ نکل آئے تاکہ وہ آرام سے کھیل سکیں اور عید کی خوشیاں منا ئیں ۔ویسے بھی عید ہو یا کوئی اور تہوار بچوں سے نظر آرہی ہے۔
جہاں تک بڑوں کا تعلق ہے اُن کے لئے کوئی بھی تہوار مسائل ومشکلات لے کر آتا ہے۔اُنہیں بچوں اور دیگر افراد خانہ کی فرمائش پوری کرنی پڑتی ہے ۔ایک طرف آمدنی کی کمی اور دوسری جانب خرچات کی بہتات ،ان لوگوں کے دن رات خراب کر دیتے ہیں ۔وہ ہر وقت سوچتے رہتے ہیں کہ کس طرح گھر کے اخراجات پورے کریں ۔وہ بھی اس مہنگائی کے زمانے میں جب انسان نوٹوں کی گٹھڑی لے کر بازار جاتا ہے اور وہاں سے چند لفافوں میں کھانے پینے کی قلیل چیزیں لاتا ہے ۔
غرض مہنگائی کے اس زمانے میں نہ ہی تاجر خوش ہے اور نہ ہی گاہک۔سبھی کا کہنا ہے کہ آمدنی آٹھنی، خرچہ روپیہ۔





