ڈاکٹرمفتی محمد مقبول :تصوف کے سلاسل کو چشمئہ پیغام بنانے والے کشمیری قلمکار وشاعر

ڈاکٹرمفتی محمد مقبول :تصوف کے سلاسل کو چشمئہ پیغام بنانے والے کشمیری قلمکار وشاعر

شوکت ساحل

سرینگر::: جموں وکشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر کے سیول لائنز علاقہ محبوب آباد راولپورہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مفتی محمد مقبول تصوف کے 14سلاسل کو چشمئہ پیغام میں تبدیل کرنے والے کشمیری قلمکار ،ادیب اور شاعر ہیں ۔ دراصل مفتی محمد مقبول کا بچپن سرینگر کے شہر خاص (ڈاﺅن ٹاﺅن)کی تنگ وتاریک گلیوں میں گزرا ہے۔زینہ کدل کے محلہ ڈب تل (گگری محلہ) میں مفتی محمد مقبول نے ایک ایسے روحانی خاندان میں جنم لیا ،جس کے آباواجداد کا تعلق پشاور پاکستان سے تھا ۔

تصویر:امتیاز گلزار

ایشین میل ملٹی میڈیا کی تحقیقی ٹیم اس غیر معروف و گمنام ادیب وقلمکار تک بھی پہنچ گئی ۔ایشین میل ملٹی میڈیا کے ہفتہ وار پروگرام ”بزمِ عرفان “میں وادی کشمیر کے معروف براڈ کاسٹر عبدالاحد فرہاد سے خصوصی گفتگو کرنے کے دوران مفتی محمد مقبول نے اپنے ادبی سفر کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا ۔

مفتی محمد مقبول کے دادا مفتی غلام محی الدین 9برس کی عمر میں اپنی کشمیری والدہ محترمہ کیساتھ پشاور پاکستان سے وارد ِ کشمیر ہوئے ۔اپنے آبا و اجدادکی دلچسپ کہانی بیان کرتے ہوئے مفتی محمد سعید کہتے ہیں مفتی محمد منور شاہ ایک کشمیری تاجر تھے ،جو برآمد ودرآمد کا کارو بار کرتے تھے۔ان کا کہناتھا کہ اُن کے دادا کی والدہ کا نکاح اسی کاروباری شخصیت ہوا تھا ،جو9سال تک پشاور پاکستان میں تجارت کے سلسلے میں قیام کرتے تھے ،جہاں اُن کا اچانک انتقال ہوا ۔

چنانچہ میرے دادا مفتی غلام محی الدین 9برس کی عمر میں ہی یتیم ہوئے تھے ،اس سلسلے اُنکی بیوہ کشمیری والدہ نے پاکستان میں رہائش اختیار کرنے کی بجائے ،اپنے آبائی وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا اور وہ اپنے ساتھ 9سال کے بیٹے کو لیکر آئیں اور محلہ ڈب تل (گگری محلہ) زینہ کدل میںمولوی احمد اللہ کیساتھ دوسرا نکاح کیا ۔اسی خاندان میں مفتی غلام محی الدین نے ڈب تل زینہ کدل علاقے میں صوبی بزرگ وبلند پائیہ ولی کامل حضرت خوابہ حبیب اللہ عطار ؒ کے زیر سایہ  پرورش کی ۔

مفتی محمد مقبول نے شہر خاص کے زینہ کدل علاقے میں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔بی ایس سی مضمون میں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد مفتی محمد مقبول نے ”انگریزی ،اردو اور کشمیری“ میں ماسٹرس کی ڈگریاں حاصل کیں ۔مفتی محمد مقبول نے زندگی کا سارا وقت اپنی شخصیت کو نکھار نے میں صَرف کیا اور اعلیٰ تعلیم کا سفر جاری رکھا ۔مفتی محمد مقبول نے پہلے ایم فل اور بعد ازاں پی ایچ ڈی مکمل کرکے ڈاکٹر کا خطاب بھی اپنے نام سے جوڑ دیا ۔

مفتی محمد مقبول نے سنہ 1998میں شہر خاص کی گلیوں سے نکل کر سیول لائنز کے پاش علاقہ راولپورہ منتقل ہوئے ،جہاں اب وہ مستقل سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں ۔انہوں نے علم وعرفان کا درس کشمیر کے نامور صوفی بزرگ احمد صاحب تاربلی کے نواسے بُدھ صاحب سے حاصل کیا ۔

تصویر:امتیاز گلزار

مفتی محمد مقبول کہتے ہیں اُنکی پہلی تصنیف ” اردو ۔کشمیری بول چال “ منظر عام آئی ،جسکے شائع ہونے پر اُنہیں800روپے کا معاوضہ بھی ملا ،جس کے بعد قلمبند ی کا یہ سلسلہ باضابطہ طور پرشروع ہوا تاحال جاری ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ وادی کشمیر کے مشہور معروف معلم ، مولا نا انور صاحب لولابی کے بھتیجے ایک دن اُنکے گھر آئے اور اپنا تعارف دیتے ہوئے کہا ”میں حضرت سلطان العارفین شیخ حمزہ مخدوم پاک ؒ کی زیارت گاہ سے ہوکر آیا ہوں ،جہاں سنا کہ آپ کتابیں وغیرہ لکھتے ہیں ۔“

ان کا کہناتھا ’گفتگو کے دوران میں نے اپنی تصانیف اُنکے سامنے رکھیں ،لیکن مذکورہ روحانی شخصیت متاثر نہیں ہوئے اور کہا کہ میں چاہتا ہوںکہ آپ نوجوان پود کے لئے کچھ لکھیں ، تصوف کے14سلاسل ہیں،جن میں سے پانچ کشمیر میں ہی ہیں ،آپ اُن پر ”باقیات و صالحات “ یعنی (یعنی باقی رہنے والی نیکیاں)تحریر کریں اور کشمیری ادب ،ثقافت اور صوفیت کی خدمت ہونے کیساتھ ساتھ نوجوان نسل کے لئے چشمئہ پیغام بھی ہوگا “۔

ڈاکٹر مفتی محمد مقبول کہتے ہیں ” موصوف نے ورطِ حیرت میں ڈال دیا اور خود با قیات وصالحات کا مفہوم سمجھا کر چلے گئے “۔دو درجن سے زیادہ کتابوں تحریر کرچکے ڈاکٹر مفتی محمد نے مزید کہا کہ ، مولا نا انور صاحب لولابی کے بھتیجے کے کہنے پر انہوں نے پانچ کشمیری صوفی سلاسل کے باقیات وصالحات قلمبند کرنا شروع کردیا ۔انہوں نے پہلے حضرت سلطان العارفین شیخ حمزہ مخدوم پاک ؒ ،پھر شاہِ ہمدان اور حضرت غوث العظم کی سیرت پر کتابیں قلمبند کیں ۔

تصویر:امتیاز گلزار

ڈاکٹر مفتی محمد مقبول انگریزی ،اردو اور کشمیری میں دو درجن سے زیادہ کتابیں قلمبند کرچکے ہیں جبکہ اُن کی تصانیف میں ”Our Crafts، Teaching of Arts،عربی گرامر ،اردو عربی بول چال ،ارکانہ خسہ یعنی اسلام کے بنیادی اصول ، سانہ ِ اتھ کامہِ ،محبوب العام ، حضرت غوث العظم ، شاہ ِ ہمدان وغیرہ شامل ہیں ۔ڈاکٹر مفتی محمد مقبول اردو اور کشمیری میں صوفی شاعری کا مزاج بھی اپنے اندر رکھتے ہیں۔تاہم اُنکی شاعری نے ابھی تک کتابیں شکل اختیار نہیں کی ۔

ڈاکٹر مفتی محمد مقبول نے اپنی ادبی ،علمی اور اخلاقی کامیابی کا سہرا اپنی والدہ کے سر باندھ دیتے ہوئے کہا کہ اُنکی والدہ نے چرخہ چلاکر نہ صرف اُنکی پرورش کی بلکہ نذر ونیاز کرکے میری(ڈاکٹر مفتی محمدمقبول کی) کامیابی کے لئے صوفی بزرگوں کے آستانوں پر دعائیں کیا کرتی تھیں ،ہماراعقیدہ یہی ہے کہ ان درباہوں سے خیر اور برکت کی چشمہ بہتا ہے ،جو بلامذہب وملت لوگوں کو سیراب اور فیضیاب کرتا ہے ۔

تصویر:امتیاز گلزار

ڈاکٹر مفتی محمد مقبول ،کشمیر یونیورسٹی میں پہلے ایڈمنسٹریٹر اور بعد ازاں ماہر تعلیم کے عہدے پر فائز رہے اور آج کل اپنے اہل عیال کیساتھ ریٹائرمنٹ کی خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.