وقت موزوں نہیں

وقت موزوں نہیں

جموں وکشمیر میں پراپرٹی ٹیکس کے نفاذ کو لیکر عوامی اور سیاسی حلقوں میں زبردست ہلچل مچ گئی ہے ۔بیشتر سیاسی جماعتوں کے لیڈران ،سیول سوسائٹی ممبران نے اس انتظامی فیصلے کی یہ کہہ کر مخالفت کی ہے کہ اس طرح کے اہم فیصلہ جات عوامی حکومت کے دائرہ اختیار میں رہنے چاہیے کیونکہ یہاں جمہوری نظام کے تحت ہی اہم فیصلے لئے جاتے ہیں ۔غالباً اسی لئے کسی بھی قانون کے نفاذ کے وقت پہلے پارلیمنٹ ،اسمبلی یا پھر کونسل میں بحث وتمحیص ہوتی ہے، اُسکے بعد ہی قانون کا نفاذ عمل میں لاجاتا ہے کیونکہ ممبران نہایت ہی متانت اور سوچ وسمجھ کے مطابق فیصلے کو پہلے گہرائی سے جانچ لیتے ہیں کہ اس میں کس قدر حکومتی اور عوامی تحفظات شامل ہیں ، یا کس قدر نقصانات کا اندیشہ لاحق ہے ۔

بہرحال جموں وکشمیر ایل جی انتظامیہ نے جو پراپرٹی ٹیکس سے متعلق آرڈر نکالا اُس کے منظر عام پر آتے ہی سیاسی جماعتوں کے لیڈران اور سیول سوسائٹی ممبران سیخ پا ہو گئے ۔

نیشنل کانفرنس ،پی ڈ ی پی ،کانگریس ،پی سی اور اپنی پارٹی کے لیڈرا ن اور ڈیموکریٹک پروگریسیو آزاد پارٹی بھی اس فیصلے کےخلاف اپنی ناراضگی دکھا رہی ہے اور پریس بیانات جاری کئے ،یہاں تک مرکز میں حکمران جماعت بی جے پی کی جموں وکشمیر یونٹ بھی ناخوش ہے۔

جموں بارایسو سی ایشن سے وابستہ وکلاءحضرات نے کام چھوڑ ہڑتال کی کال دیتے ہوئے مشکلات پیدا کردئیے ۔ان تمام بیانات کے بعد انتظامیہ کو اس قانون سے متعلق وضاحت کرنی پڑی کہ کون اس ٹیکس کے دائر ے میں آتا ہے اور کون نہیں؟ کس کو چھوٹ دی جائے گی اور کس کو نہیں؟ ۔

کتنا ہی بہتر ہوتا اگر انتظامیہ اس حوالے سے پہلے ایک مشق کے طور تمام میونسپل کمیٹیوں اور کارپوریشنوں میں اس حوالے سے بحث کرواتہ تاکہ عوامی تحفظات بھی سامنے آتے ۔

ویسے بھی جمہوری نظام میں پارلیمنٹ اور اسمبلی یا پھر میونسپل اداروں کے زریعے سے ہی اہم فیصلہ لینے چاہیے ۔یہی جمہوری نظام کا تقاضہ ہے ۔

عوامی حکومت کے فیصلوں پر عام لوگ کم ہی ناراض ہوتے ہیں ۔جہاں تک جموں وکشمیر کا تعلق ہے، یہاں صرف 5فیصد لوگ سرکاری ملازم ہیں ،زیادہ تر آبادی محنت مزدوری یا پھر دستکاری کے زریعے ہی اپنی گھرگر ہستی چلاتی ہے ۔

ادھر کورونا وائرس اور 30برسوں کے نامساعد حالات کی وجہ سے عام جموں وکشمیر کے لوگ متاثر رہے، ان حالات میں اُن پر ایک اور بوجھ ڈالنا حالات کے برعکس نظر آرہا ہے ، جس پر ایل جی اور مرکزی حکومت کو غور کرنا چاہیے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.